امریکا ایران پر سے پابندیاں نہیں ہٹائے گا: جو بائیڈن
8 فروری 2021
ایران کا اصرار ہے کہ اس پر عائد پابندیوں کا خاتمہ 2015 کے جوہری معاہدے میں اس کی واپسی کی پیشگی شرط ہے لیکن امریکی صدرکا کہنا ہے کہ پہلے تہران اپنے جوہری وعدے پورا کرے۔
اشتہار
امریکی صدر جو بائیڈن نے اتوار کے روز اس امر کی تصدیق کی کہ ایران جب تک جوہری معاہدے کی شرائط کی پابندی نہیں کرتا ہے اس وقت تک اس کے خلاف عائد پابندیاں ختم نہیں کی جائیں گی۔
ٹیلی ویزن نیٹ ورک سی بی ایس کے ساتھ ایک انٹرویو میں جب بائیڈن سے پوچھا گیا کہ کیا امریکا ایران کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے پر آمادہ کرنے کی غرض سے اس کے خلاف ”پہلے پابندیاں ختم"کردے گا تو انہوں نے واضح انداز میں جواب دیا''نہیں"۔
جب ان سے مزید پوچھا گیا ”اگر ایرانی پہلے یورینیم کی افزودگی روک دیتے ہیں تو کیا وہ پابندیاں ہٹا دیں گے" اس پر صدر بائیڈن نے سر ہلاکر ہاں میں جواب دیا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سن 2018 میں امریکا کو سن 2015 کے جوہری معاہدے سے الگ کرلینے کے بعد سے تہران نے جوہری معاہدے کی پاسداری ختم کردی تھی دوسری طرف واشنگٹن نے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھیں۔
ایران نے جوہری معاہدے کی رو سے صرف 3.76 فیصد یورینیم افرودہ کرنے کی حد کو توڑتے ہوئے جنوری میں 20 فیصد یورینیم افزودہ کرنا شروع کر دیا تھا۔
گزشتہ ماہ بائیڈن کے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکا اور ایران دونوں نے سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی تاہم دونوں اپنی اپنی شرطوں پر زور دے رہے ہیں۔
’پہلے امریکا پابندیاں ختم کرے‘
ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ علی خامنہ ای نے اتوار کے روز کہا ”اگر وہ چاہتے ہیں کہ ایران معاہدے پر واپس آئے تو امریکا کو عملی طور پر تمام پابندیاں ختم کرنی ہوں گی"۔ ان کا کہنا تھا کہ ”جب تمام پابندیوں کے درست طور پر خاتمے کی تصدیق ہوگی تو پھر ہم تمام وعدوں پر واپس آئیں گے، یہ فیصلہ حتمی اور ناقابل واپسی ہے اور اس پر ایران کے تمام عہدیداروں کا اتفاق ہے۔"
ایرانی سپریم لیڈر کا کہنا تھا ”ایران نے معاہدے میں شامل تمام شرائط پوری کی ہیں لیکن امریکا اور یورپی ممالک نے ایسا نہیں کیا۔"
خامنہ ای کا یہ بیان اتوار کے روز اسی دن آیا ہے جب یمن کے لیے امریکا کے خصوصی سفیر نے یمن میں جاری جنگ کا سیاسی حل تلاش کرنے کی امریکی کوششوں کے تحت تہران کا دورہ کیا۔ بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یمن کی جنگ دراصل ایران اور سعودی عرب کے مابین بالواسطہ جنگ ہے۔
ج ا /ص ز (روئٹرز،اے ایف پی)
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔