امریکی حکام کا کہنا ہے کہ واشنگٹن نے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے 'انتہائی سنجیدہ‘ تجاویز پیش کی ہیں، جن پر اب تہران کے جواب کا انتظار ہے۔
اشتہار
ایک امریکی عہدیدار نے نامہ نگاروں سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”امریکی ٹیم نے انتہائی سنجیدہ تجاویز پیش کی ہیں اور اگر ایران معاہدے کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے تو امریکا بھی اس کے بارے میں سنجیدہ ہے۔" انہوں نے کہا کہ اب امریکا ایران کے جواب کا منتظر ہے۔
امریکی عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ایران کی طرف سے مثبت ”اشارے ضرور ہیں لیکن یہ یقینی طورپر کافی نہیں ہیں۔ اب بھی بہت سے سوالات ہے کہ آیا ایران اس معاہدے پر عمل درآمد کا خواہش مند ہے یا نہیں۔"
امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت سابق صدر باراک اوبامہ کے دور میں ہونے والا جوہری معاہدہ بحال کرنا چاہتی ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں صدر ٹرمپ نے اس معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے امریکا کو یک طرفہ طور پر اس عالمی ڈیل سے الگ کردیا تھا۔
اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے جوہری سرگرمیوں کو ڈرامائی طورپر کم کررہا ہے۔
امریکا تمام پابندیاں اٹھائے
تہران کا کہنا ہے کہ کسی پیش رفت سے پہلے امریکا کو ایران پرعائد تمام پابندیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ ایرنی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ایک ٹویٹ میں کہا: ”امریکا، جس نے اس بحران کو پیدا کیا ہے، پہلے اپنے وعدوں پر مکمل عمل درآمد کرے۔ ایران پھر جوابی اقدام کرے گا۔"
جواد ظریف نے اپنے ٹویٹ میں مزید کہا ہے کہ ٹرمپ نے ایران کے خلاف جتنی بھی پابندیاں لگائیں، وہ ایران جوہری معاہدے (جے سی پی او اے) کے خلاف تھیں اور انہیں فوری طور پر ختم کر دینا چاہیے۔
ویانا مذاکرات میں موجود ایرانی حکومت کے نمائندے عباس عراقچی نے ”دیگر فریقین کی جانب سے بھی سیاسی قوت ارادی اور سنجیدگی" کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بغیر" بات چیت جاری رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔"
مذاکرات جاری
یورپی یونین کی صدارت میں ہونے والی اس بات چیت میں ایران کے علاوہ برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس شامل ہیں۔ امریکی وفد بھی ویانا میں موجود ہے لیکن ایران نے امریکی مذاکرات کار راب میلے سے براہ راست بات چیت کرنے سے انکار کردیا ہے۔ یورپی یونین کے سفارت کار ایک دوسرے ہوٹل میں مقیم امریکی وفد کو مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت سے مسلسل آگاہ کررہے ہیں۔
مذاکرات میں یورپی یونین کی نمائندگی کرنے والے اینرک مورا نے جمعے کے رو ز ملاقات کے بعد کہا کہ "بات چیت تعمیری اور نتیجہ خیز رہی۔"
ماسکو کے سفیر میخائل اولیانوف کا کہنا تھاکہ ”شرکا نے میٹنگ میں ہونے والی ابتدائی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور چاہتے ہیں کہ یہ مثبت رفتار برقرار رہے۔" جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے بھی بات چیت کو ”تعمیری" قرار دیا۔ بات چیت کا اگلا دور آئندہ ہفتے ہوگا۔
ج ا/ ش ج (اے ایف پی، روئٹرز)
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔