امریکا: بائیڈن کی حلف برداری سے قبل انتہائی سخت سکیورٹی
12 جنوری 2021
امریکی حکام کیپیٹل ہل تشدد کے تناظر میں جو بائیڈن کی حلف برداری تقریب کی سکیورٹی کے لیے فوجیوں کو تعینات کر رہے ہیں جبکہ ایف بی آئی نے 20 جنوری تک ملکی سطح پر منصوبہ بند مسلح مظاہروں کے تئیں متنبہ کیا ہے۔
اشتہار
امریکا میں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے کیپیٹل ہل کی عمارت میں ہونے والے پر تشدد واقعات کے درمیان نو منتخب صدر جو بائیڈن کی 20 جنوری کو ہونے والی حلف برداری تقریب کے لیے سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کا فیصلہ کیا ہے۔ واشنگٹن میں کیییٹل ہل کے پرتشدد واقعات میں ایک پولیس اہلکار سمیت پانچ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
ہوم لینڈ سکیورٹی کے کارگزار سکریٹری چاڈ اولف نے پیر 11 جنوری کو اپنے استعفے سے محض چند گھنٹے قبل کہا تھا کہ انہوں نے امریکی خفیہ سروس سے کہا ہے کہ وہ 13 جنوری سے ہی نیشنل اسپیشل سکیورٹی کی تعیناتی کے عمل کا آغاز کر دے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے کے واقعات اور حلف برداری تقریب تک سکیورٹی کی بدلتی صورت حال کے پیش نظر اصل منصوبے کے برعکس ایک ہفتہ قبل ہی خصوصی سکیورٹی کے بند و بست کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں وفاقی ایجنسیز، ریاستی ادارے اور مقامی حکام کے درمیان، ''اس اہم تقریب کے لیے منصوبوں، پوزیشن اور وسائل کے سلسلے میں ہم آہنگی کا کام جاری رہیگا۔'' ایسی تقاریب کی سکیورٹی کے ذمہ دار خفیہ ایجنسیز کے سربراہان قومی سطح پر بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
نیشنل گارڈز کی تعیناتی
پیر کے روز ہی کیپیٹل ہل کی سکیورٹی کے لیے 'نیشنل گارڈ بیورو' سے پندرہ ہزار مزید فوجیوں کو واشنگٹن بھیجنے کو کہا گیا ہے۔ نیشنل گارڈ بیورو کے سربراہ ڈینیئل ہوکینسن کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے ہونے والے تشدد کے پیش نظر چھ ہزار 200 نیشنل گارڈز پہلے ہی سے واشنگٹن میں تعینات ہیں۔نامہ نگاروں سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ لاجیسٹک، کمیونیکشن اور سکیورٹی کو مزید بہتر کرنے کے مقصد سے تقریبا ًدس ہزار مزید فوجی سنیچر تک واشنگٹن پہنچیں گے اور اگر ضرورت پڑی تو پانچ ہزار اضافی دستے دوسری ریاستوں سے طلب کیے جائیں گے۔
سکیورٹی کے لیے اٹھائے گئے دوسرے اقدامات کے تحت آئندہ 24 جنوری تک واشنگٹن کے تمام اہم سیاحتی مقامات کو سیاحوں کے لیے بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور سیاحوں کو واشنگٹن کے ایسے تمام مقامات تک نہ جانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
صدر کی حلف برداری تقریب دیکھنے کے لیے لاکھوں لوگ واشنگٹن آتے ہیں۔ لیکن اس بار تقریب کے منتظمین اور شہر کے میئر مریئل باؤزر نے امریکیوں سے اس تقریب میں شرکت کے لیے واشنگٹن نہ آنے کی اپیل کی ہے۔ جب تک اس تقریب کا باقاعدگی سے اختتام نہیں ہوجاتا اس وقت تک شہر کو ہائی الرٹ پر رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اس بار کی افتتاحی تقریب پہلے ہی مختصر کر دی گئی تھی اور سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر اس بار اس کے مزید سادہ رہنے کی توقع ہے۔ اس بار کی تقریب کی تھیم ''متحد امریکا'' ہے۔
اشتہار
ایف بی آئی کی وارننگ
امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی نے اتوار کے روز خبردار کیا تھا کہ واشنگٹن ڈی سی میں افتتاحی تقریب کی تیاریوں اور پروگرام کے موقع پر ملک کی پچاسوں ریاستوں میں منصوبہ بند مسلح مظاہروں کا خدشہ ہے۔ حکام کے مطابق اس ہفتے کے آخر میں ایسے مظاہروں کا آغاز ہوسکتا ہے جو حلف برداری تقریب کے مکمل ہونے تک جاری رہ سکتے ہیں۔
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔
تصویر: Spencer Platt/Getty Images
12 تصاویر1 | 12
ادارے نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''تمام پچاس ریاستوں میں 16 جنوری سے 20 جنوری تک مسلح مظاہروں کے منصوبے کی تیاری کی جا رہی ہے جبکہ واشنگٹن ڈی سی میں 17 جنوری سے 20 جنوری کے درمیان اس کا امکان ہے۔''
بائیڈن بے خوف ہیں
اس دوران نو منتخب صدر جو بائیڈن نے اپنی سکیورٹی سے متعلق کسی خدشے کا اظہار نہیں کیا ہے۔ پیر کے روز انہوں نے کہا، ''میں باہر کھلے میں حلف لینے سے قطعی خوف زدہ نہیں ہوں۔ اہم بات یہ ہے کہ جو بھی اس طرح کی باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوا، زندگی کے لیے خطرہ بنا، سرکاری املاک کو نقصان پہچانے کی کوشش کی تو اس کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔''
صدر ٹرمپ نے پہلے ہی جو بائیڈن کی حلف برداری تقریب میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جسے بائیڈن نے اچھا قدم بتایا۔ تاہم اطلاعات کے مطابق نائب صدر مائیک پینس اس میں شریک ہوں گے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)
امریکی صدور کے پالتو جانوروں کی تاریخ
وائٹ ہاؤس کی تاریخ میں امریکی صدور کے ہمراہ متجسس بلیوں سے لے کر اسکینڈل کا سبب بننے والے کتوں سمیت مختلف پالتو جانور رہ چکے ہیں۔ اس مرتبہ جو بائیڈن کے ساتھ بھی ان کے پالتو جانور جلد وائٹ ہاؤس منتقل ہوں گے۔
تصویر: Marcy Nighswander/dpa/picture alliance
جو بائیڈن کا جرمن شیپرڈ
بائیڈن کے جرمن شیپرڈ نسل کے کتے کی ٹانگ اس وقت ٹوٹ گئی جب نومنتخب صدر اس کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے سے پہلے اب بائیڈن کو ایک بلی دی جائے گی۔ وائٹ ہاؤس میں پہلی مرتبہ پالتو بلی امریکا کے دوسرے صدر رتھرفورڈ ہائس لائے تھے۔
تصویر: Stephanie Carter/dpa/picture alliance
ٹرمپ کا کوئی ’فرسٹ پیٹ‘ نہیں تھا
گزشتہ ایک صدی کے عرصے میں ڈونلڈ ٹرمپ ایسے واحد صدر رہے جن کے پاس کوئی پالتو جانور نہیں تھا۔ باراک اوباما کے دو کتے ’بو اور سنی‘ وائٹ ہاؤس میں آخری پالتو جانور تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Souza
کلنٹن کی بلی ’ساکس‘
سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی بلی ’ساکس‘ اور لیبراڈور کتا ان کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں رہتے تھے۔ ساکس اوول آفس میں ایک مرتبہ بل کلنٹن کے کندھوں پر چڑھ کر کھیلتی بھی دیکھی گئی تھی۔
تصویر: Everett Collection/picture alliance
وائٹ ہاؤس کی ویڈیوز میں پالتو جانور
صدر جارج ڈبلیو بش کے دور اقتدار میں وائٹ ہاؤس میں تین کتے اور ایک بلی رہتی تھی۔ بش کے پالتو جانوروں میں سب سے مشہور بارنی اور مِس بیزلی تھے۔ یہ دونوں وائٹ ہاؤس کی کئی ویڈیو سیریز میں دکھائی دیتے تھے۔
تصویر: Jim Watson/AFP /Getty Images
اسکینڈل کا سبب بننے والا ’فرسٹ پیٹ‘
امریکا کے 32ویں صدر فرینکلن دی روزویلٹ کا کتا ’فالا‘ اب تک کا سب سے مشہور صدارتی پالتو جانور رہا ہے۔ سن 1944 میں روزویلٹ اپنے کتے فالا کو غلطی سے چھوڑ کر ایک جزیرے کی سیر کے لیے روانہ ہوگئے۔ اور ایسی افواہ سامنے آئی کہ روزویلٹ نے ٹیکس دہنندگان کے پیسوں سے امریکی بحری جہاز کے ذریعے فالا کو اپنے پاس منگوا لیا۔ روزویلٹ اس الزام کی تردید کرتے تھے۔
تصویر: Richard Maschmeyer/picture alliance
کینیڈی کا پالتو گھوڑا
امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے اپنی بیٹی کیرولین کو چھوٹی قد کی نسل کا ایک خوبصورت گھوڑا تحفہ دیا تھا۔ اس کا نام ماکارونی تھا۔ موسم سرما کے دوران وائٹ ہاؤس کے صحن میں کیرولین اور اس کے دوست ماکارونی پر گھڑ سواری کرتے تھے۔
تصویر: akg-images/picture alliance
پالتو جانور کھائے نہیں جاتے
وائٹ ہاؤس کا سب سے انوکھا پالتو جانور راکون ممالیہ تھا، جس کا نام ربیکا تھا۔ صدر کیلون کولج کو یہ راکون تھینکس گونگ کے روایتی پکوان میں استعمال کرنے کے لیے تحفہ دیا گیا تھا۔ لیکن جانور دوست صدر نے اس ممالیہ کو ایک پالتو جانور کے طور پر رکھ لیا۔
تصویر: gemeinfrei
کچھ پالتو جانور کاٹتے ہیں
سن 1820 میں سربراہان مملکت کے لیے غیر ملکی رہنماؤں سے نایاب جانوروں کا تحفہ ملنا معمول کی بات ہوتی تھی۔ صدر جان کوئنسی ایڈمز کو ایک فرانسیسی فوجی جنرل نے ایک مگر مچھ کا بچہ تحفہ دیا تھا۔ بعد ازاں سن 1930 میں صدر ہیبرٹ ہوور کے بیٹے بھی وائٹ ہاؤس میں اپنے ساتھ دو پالتو مگر مچھ لائے تھے۔