ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکا جیسی مستحکم جمہوریت اور بعض یورپی ممالک میں شہری آزادیوں میں انحطاط آرہا ہے۔ چین میں مطلق العنانی میں اضافہ ہوا ہے جبکہ جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان بھارت اور برازیل میں پہنچا ہے۔
اشتہار
سویڈن کے تھنک ٹینک 'انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ الیکٹورل اسسٹنس(انٹرنیشنل آئیڈیا)' نے دنیا میں جمہوریتوں کی صورت حال کے حوالے سے پیر کے روز اپنی تازہ ترین رپورٹ شائع کی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشہ دہائی کے دوران دنیا کی متعدد جمہوریتوں میں انحطاط پذیری کی رفتار دوگنا ہوگئی ہے۔ اور اب یہ صورت حال دنیا کے ایک چوتھائی ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ان میں امریکا جیسی مستحکم جمہوریت اور ہنگری، پولینڈ اور سلووینیا جیسے یورپی یونین کے ممالک بھی شامل ہیں۔
انٹرنیشنل آئیڈیا کی اس سالانہ رپورٹ کے مطابق امریکا اور کئی یورپی ممالک میں شہری آزادیوں اور دیگر آزادیوں کو مسلسل انحطاط کا سامنا ہے جبکہ آمرانہ حکومتیں " پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ جابرانہ رویے اختیار کررہی ہیں۔"
امریکا جمہوری انحطاط کی فہرست میں پہلی مرتبہ
سویڈن کے اس عالمی ادارے کی جانب سے یہ رپورٹ ایک ایسے موقع پر جاری کی گئی ہے جب امریکی صدر جو بائیڈن جمہوریت کے حوالے سے اگلے ماہ ایک ورچوئل عالمی اجلاس کی میزبانی کر رہے ہیں۔ دسمبر کے دوسرے ہفتے میں ہونے والے اس اجلاس میں دنیا بھر سے 100 ممالک کے رہنما شرکت کریں گے اور جمہوریت کو درپیش چیلنجز کے موضوع پر بات کریں گے۔
اشتہار
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق رپورٹ کے شریک مصنف الیگزینڈر ہڈسن کا کہنا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ امریکا میں جمہوری اقدار میں تنزلی دیکھی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحقیق اور اعداد و شمار کے مطابق، جمہوری اقدار کو نقصان پہنچنے کا عمل 2019ء میں شروع ہوا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا ایک بہترین کارکردگی والی جمہوریت ہے اور اس کے اشاریے بھی بہتر ہوئے ہیں اور 2020ء میں حکومت بھی غیر جانبدار رہی تاہم، شہری آزادیوں پر قدغنیں اور حکومتی اداروں پر نظر رکھنے جیسے ضوابط دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ جمہوریت کے بنیادی عوامل میں کہیں نہ کہیں کوئی سنگین مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاریخی لحاظ سے اہم موڑ سن 2020-21میں اُس وقت آیا جب سابق صدر ٹرمپ نے 2020ء کے انتخابی نتائج کے جائز ہونے پر سوالا ت اٹھا دیے۔
انٹرنیشنل آئیڈیاز کے سیکرٹری جنرل کیون کاساس زمورا کا کہنا ہے کہ انتخابات کو متنازعہ بنایا جانا ایک تشویشناک بات ہے۔ امریکا میں جمہوریت میں خرابی پیدا ہونا، انتخابات میں شمولیت کے عمل کو دبانا اور پولرائزیشن ایسے معاملات ہیں جن پر تشویش ہوتی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ دھاندلی کے شواہد نہ ہونے کے باوجود حالات کا پرتشدد ہو جانا ایسا واقعہ ہے جو متعدد مرتبہ مختلف طریقوں سے ہو رہا ہے اور یہ سب میانمار، پیرو اور اسرائیل میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میانمار جمہوریت سے ہٹ کر مطلق العنان حکومت بن چکا ہے جبکہ افغانستان اور مالی ہائبرڈ حکومت کی کیٹگری سے نکل کر اسی کیٹگری میں شامل ہو چکے ہیں۔
جمہوریت اور آزادی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج
2019ء کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ بدعنوانی، غربت، معاشرتی عدم مساوات، نسلی امتیاز اور تحفظ ماحول کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ تبدیلی لانے کی شدید خواہش دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
ہیٹی: ’ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
تصویر: Reuters/V. Baeriswyl
چلی: ناانصافی کے خلاف مزید برداشت نہیں‘
اکتوبر کے آخر سے چلی میں مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اصلاحات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اکثر ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Silva
بھارت: ’قانون، جو ملک کو تقسیم کر سکتا ہے‘
پھل فروش محمد انس قریشی بھارت میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ قانون تین ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مہاجرین کی بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بناتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مسلمان نہ ہوں۔ ان مظاہروں میں اب تک بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عراق: آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ‘
عراق میں اکتوبر سے بدعنوانی اور ایران نواز حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں چھیاسٹھ سالہ ام مہدی بھی شریک ہیں۔ اب تک ان مظاہروں میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عبدل عادل مہدی کا استعفی بھی اس احتجاج کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔ مظاہرین سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
ایران: ’اقتصادی صورتحال انتہائی خراب‘
نومبر میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ایران میں کم از کم پندرہ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ احتجاج میں شریک یہ شخص اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے گولیوں کے خول ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ہانگ کانگ : ’حکومت ہمارے مطالبے تسلیم کرے‘
ہانگ کانگ میں احتجاج میں شریک یہ دونوں خود کو لبرٹی گرل اور لٹل برادر کہتے ہیں۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ آج کل شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرےجون سے جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
فرانس: ’صرف امیروں کا تحفظ‘
دیدیئر بیلاک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ اس احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے ٹرینوں اور میٹرو کی آمد و رفت خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ برس موسم سرما میں بھی ’زرد جیکٹ‘ نامی احتجاج کے دوران ماکروں کے اصلاحاتی ایجنڈے پر شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
بولیویا: ’حکومت ہمارے وطن کو فروخت کر رہی ہے‘
ریویرا زمپانو نے مستعفی ہونے والے ملکی صدر ایوو مورالیس کے دیگرحامیوں کے ساتھ مل کر سڑک کی ناکہ بندی کی تھی۔ مورالیس کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم ان مظاہرین کے برعکس زمپانو کا موقف ہے کہ بولیویا کی عبوری حکومت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Bello
کولمبیا:’ انقلاب کے بعد ہی تبدیلی‘
اندریس فیلیپے نے دسمبر کے اوائل میں ملکی سربراہ مملکت ایوان دوکے کے خلاف ہونے میں مظاہروں میں شرکت کی۔ مظاہرین سماجی شعبے میں منصفانہ پالیسیوں، تعلیم و تربیت کے لیے مزید رقم مختص کرنے اور صحت کے بہتر نظام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا ایک مطالبہ سابقہ فارک باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی تھا۔
تصویر: Reuters/L. Gonzalez
لبنان:’ گزشتہ تیس برسوں سے یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں‘
اکتوبر سے لبنان میں گاہے بگاہے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ بدعنوانی اور غلط اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی حبا غوسن جیسے شہری نئے نامزد کردہ حکومتی سربراہ حسن دیاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حسن دیاب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
10 تصاویر1 | 10
پاکستان کا ذکر نہیں
اس مرتبہ رپورٹ میں پاکستان کو توجہ کا مرکز نہیں بنایا گیا کیونکہ دیگر ملکوں پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے۔ تاہم، پاکستان کو 2008ء سے ہی ایک کمزور جمہوریت قرار دیا گیا ہے۔
گروپ کے عبوری جائزے کے مطابق، دنیا میں 98 ممالک میں جمہوریت ہے اور یہ تعداد گزشتہ کئی برسوں کے بعد اپنی کم ترین سطح پر ہے۔ روس، مراکش اور ترکی سمیت 20 ممالک میں ہائبرڈ جمہوریت ہے جبکہ چین، سعودی عرب، ایتھوپیا اور ایران سمیت 47 ممالک میں آمرانہ حکومت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے،" درحقیقت عالمی آبادی کی 70فیصد اس وقت غیر جمہوری حکومتوں یا جمہوری انحطاط پذیر ملکوں میں رہتی ہے۔"
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بعض ملکوں میں حکومتوں نے کورونا وائرس کی وبا کو اپنے مخالفین کو دبانے اور انہیں خاموش کرانے کے لیے حربے کے طور پر استعمال کیا۔ان میں بیلاروس، کیوبا، میانمار، نکاراگوا اور وینزویلا خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دنیا میں جمہوریت کو سب سے بڑا نقصان بھارت اور برازیل میں دیکھا گیا۔ان ملکوں نے بالخصوص ایسے اقدامات کیے جنہیں جمہوریت کے خلاف کہا جاسکتا ہے۔ یہ ایسے اقدامات تھے جو نامناسب اور غیر قانونی تھے اور انہیں کسی بھی لحاظ سے ایسا نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ہنگامی صورت حال کی وجہ سے کیے گئے۔