امریکا تاحال طالبان سے براہ راست مکالمت کی امید میں
17 ستمبر 2013جیمز ڈوبنز نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ امریکا ابھی بھی ایسی مکالمت کا حامی ہے، جس میں کابل حکومت یا اس کی قائم کردہ افغان اعلیٰ امن کونسل کی موجودگی میں واشنگٹن اور طالبان کے مابین براہ راست بات چیت ہو سکے۔
اگلے برس افغانستان سے اتحادی فوج کے انخلاء سے قبل طالبان نے اس سال جون میں امریکا کے ساتھ مکالمت کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اپنا ایک رابطہ دفتر کھولا تھا تاہم یہ سفارتی کوششیں اپنے آغاز سے پہلے ہی ناکام ہو گئی تھیں۔
جیمز ڈوبنز نے پیر کی شام امریکی دارالحکومت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے اس بارے میں امید ابھی ترک نہیں کی۔ ہمیں ابھی بھی امید ہے کہ کسی نہ کسی وقت ایسی مثبت پیش رفت ہو گی۔ لیکن کب، اس بارے میں ہم کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتے۔‘‘
افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے نے واشنگٹن میں نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا، ’’یہ کہنا عملیت پسندی ہو گی کہ اس وقت افغان طالبان امریکا، افغان حکومت یا کسی بھی دوسرے فریق کے ساتھ بات چیت پر آمادہ نظر نہیں آتے۔‘‘
افغان طالبان نے قریب تین ماہ قبل دوحہ میں اپنا جو رابطہ دفتر کھولا تھا، اسے ظاہری طور پر ایک ایسے سفارت خانے کی سی شکل دی گئی تھی جو 1996ء سے 2001ء تک کابل میں اقتدار میں رہنے والے طالبان کی کسی جلاوطن حکومت کا نمائندہ ہو۔
اس پر افغان صدر حامد کرزئی نے شدید برہمی کا اظہار کیا تھا اور رد عمل کے طور پر امریکا کے ساتھ کابل حکومت کے ان دو طرفہ مذاکرات سے بھی جزوی طور پر علیحدگی اختیار کر لی تھی جن کا مقصد واشنگٹن کے ساتھ 2014ء میں افغانستان سے اتحادی فوجی دستوں کے انخلاء کے بعد کے عرصے کے لیے کوئی سکیورٹی معاہدہ طے کرنا تھا۔
اس اقدام کے بعد طالبان نے صدر حامد کرزئی کے ساتھ مکالمت سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا تھا کہ وہ ’امریکا کی کٹھ پتلی‘ ہیں۔ یہ معاملہ اس لیے بھی پیچیدگی اختیار کر گیا تھا کہ طالبان کے صدر کرزئی کے خلاف ’امریکا کی کٹھ پتلی‘ ہونے کے الزام کے برعکس خود امریکا کو دوحہ میں ہونے والے ممکنہ مذاکرات سے امید یہ تھی کہ ان میں بہرحال کابل حکومت ہی مرکزی کردار ادا کرے گی۔
جیمز ڈوبنز کے بقول طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں کی اب تک کی ناکامی میں طالبان کے دوحہ میں کھولے گئے دفتر کے کردار سے متعلق ’’حقیقی غلط فہمی‘‘ نے سب سے بڑا کردار ادا کیا۔
امریکا نے اب اپنا ہدف یہ بنا رکھا ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ مستقبل میں سلامتی کے شعبے میں تعاون سے متعلق دوطرفہ معاہدہ اگلے مہینے اکتوبر میں طے پا جانا چاہیے۔