امریکا جرمنی میں تعینات اپنی کچھ فوج پولینڈ منتقل کرے گا
25 جون 2020
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اپنے پولش ہم منصب انجے ڈوڈا کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اپنے اس منصوبے کا ذکر کیا۔ ٹرمپ جرمنی کے دفاعی بجٹ اور روس سے توانائی کے حصول پر ناخوش ہیں۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اس منصوبے کا ایک بار پھر ذکر کیا ہے کہ وہ جرمنی میں تعینات امریکی فوج کا کچھ حصہ پولینڈ بھیج دیں گے۔ انہوں نے جرمنی کی طرف سے ان کے بقول ناکافی دفاعی اخراجات اور روس سے توانائی کے حصول کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
پولستانی صدر انجے ڈوڈا کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں منعقد کی گئی ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ کا کہنا تھا، ''وہ اضافی فوج بھیجنے کے اخراجات ادا کریں گے اور ہم انہیں جرمنی سے پولینڈ منتقل کریں گے۔‘‘
ڈونلڈ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ امریکا جرمنی میں موجود اپنی مسلح افواج کی تعداد 'کافی حد تک‘ کم کر دے گا اور یہ کہ کچھ فوجی واپس امریکا چلے جائیں گے جبکہ بقیہ کو دیگر مقامات پر منتقل کر دیا جائے گا، جیسے پولینڈ۔
امریکی صدر سے جب پوچھا گیا کہ ان کے اس فیصلے کو روس کس طرح دیکھے گا تو ان کا کہنا تھا، ''یہ روس کو ایک سخت پیغام ہو گا، مگر میرے خیال سے اس سے بھی زیادہ سخت پیغام جو روس کو جائے گا وہ یہ حقیقت ہے کہ جرمنی پائپ لائن کے ذریعے روس سے توانائی کے حصول کے لیے اسے کئی بلین ڈالر ادا کر رہا ہے۔‘‘
کس ملک کے پاس کتنے طیارہ بردار بحری بیڑے ہیں؟
دنیا میں اب تک 168 طیارہ بردار بحری بیڑے بنائے جا چکے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں محض 19 بحری بیڑے زیر استعمال ہیں۔ پکچر گیلری میں جانیے کس ملک نے کتنے بحری بیڑے تیار کیے اور کتنے آج زیر استعمال ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/Zumapress
تھائی لینڈ
تھائی لینڈ کے پاس ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے جسے 1997 میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ بحری بیڑہ اب بھی ملکی بحریہ کے استعمال میں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ہالینڈ
چالیس کی دہائی کے اواخر میں ہالینڈ نے برطانیہ سے دو طیارہ بردار بحری بیڑے خریدے تھے۔ 1968 میں ان میں سے ایک ارجیٹینا کو فروخت کر دیا گیا تھا جو اب قابل استعمال نہیں ہے۔ دوسرا بحری بیڑہ سن 1971 میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/arkivi
ارجنٹائن
ہالینڈ سے خریدے گیا بحری بیڑا سن 1969 سے لے کر 1999 تک ارجنٹائن کی بحریہ کے زیر استعمال رہا۔ علاوہ ازیں اے آر اے انڈیپینڈینسیا بحری بیڑا 1959 سے لے کر 1969 تک زیر استعمال رہنے کے بعد اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters
برازیل
برازیل کے پاس اس وقت ایک فرانسیسی ساختہ طیارہ بردار بحری بیڑہ موجود ہے جو سن 2000 سے زیر استعمال ہے۔ اس کے علاوہ ساٹھ کی دہائی میں خریدا گیا ایک اور بحری بیڑہ بھی سن 2001 تک برازیل کی بحریہ کا حصہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/ dpa/A. Zemlianichenko
اسپین
خوان کارلوس نامی بحری بیڑہ سن 2010 سے ہسپانوی بحریہ کا حصہ ہے جب کہ ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ریزرو میں بھی موجود ہے۔ جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے دو ہسپانوی بحری بیڑے متروک بھی ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/P. Dominguez
آسٹریلیا
آسٹریلیا کے پاس مختلف اوقات میں تین ایسے جنگی بحری بیڑے تھے، جو لڑاکا طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان میں سے دو پچاس کی دہائی کے اواخر جب کہ تیسرا سن 1982 تک آسٹریلوی بحریہ کے استعمال میں رہے۔
تصویر: picture-alliance/epa/J. Brown
کینیڈا
گزشتہ صدی کے وسط میں کینیڈا کے پاس جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے پانچ بحری بیڑے تھے جنہیں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔ اس وقت کینیڈا کے پاس ایسا ایک بھی بحری بیڑہ موجود نہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
بھارت
آئی این ایس وکرمادتیا نامی روسی ساخت کا طیارہ بردار بحری بیڑہ سن 2013 سے بھارتی بحریہ کے استعمال میں ہے۔ جب کہ کوچین شپ یارڈ میں ورکرنت نامی ایک اور بحری بیڑے کی تعمیر جاری ہے۔ ویرات نامی بحری بیڑہ سن 2016 تک استعمال میں رہنے کے بعد اب ریزرو میں شامل کیا جا چکا ہے جب کہ ایک بحری بیڑہ سن 1961 سے لے کر 1997 تک زیر استعمال رہنے کے بعد اسکریپ کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Imago/Hindustan Times/A. Poyrekar
روس
اس وقت روسی فوج کے زیر استعمال صرف ایک ایسا بحری بیڑہ ہے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد روس نے نوے کی دہائی کے پہلے پانچ برسوں کے دوران چار طیارہ بردار بحری بیڑوں میں سے تین اسکریپ کر دیے تھے جب کہ ایک کی تجدید کے بعد اسے بھارت کو فروخت کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-lliance/AP Photo
جاپان
دوسری عالمی جنگ سے قبل جاپان کے پاس بیس طیارہ بردار جنگی بحری بیڑے تھے جن میں سے اٹھارہ عالمی جنگ کے دوران امریکی حملوں کے باعث تباہ ہو کر سمندر برد ہو گئے تھے۔ دیگر دو کو جاپان نے سن 1946 میں ڈی کمیشن کرنے کے بعد اسکریپ کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/Handout/P. G. Allen
فرانس
فرانسیسی بحریہ کے تصرف میں اس وقت ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے جب کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے گزشتہ صدی کے اختتام تک کے عرصے میں فرانس نے سات طیارہ بردار بحری بیڑے اسکریپ کر دیے تھے۔
تصویر: dapd
جرمنی
جرمنی نے بیسویں صدی کے آغاز سے لے کر دوسری عالمی جنگ تک کے عرصے کے دوران آٹھ طیارہ بردار بحری بیڑے تیار کرنے کے منصوبے بنائے تھے جو مختلف وجوہات کی بنا پر مکمل نہ ہو سکے۔ اس وقت جرمن بحریہ کے پاس ایک بھی ایسا بحری بیڑہ نہیں ہے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
تصویر: picture alliance/akg-images
برطانیہ
اس وقت برطانوی نیوی کے زیر استعمال کوئی طیارہ بردار بحری بیڑہ نہیں ہے لیکن لندن حکومت گزشتہ چند برسوں سے دو بحری بیڑوں کی تیاری جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ صدی میں برطانیہ کے تصرف میں چالیس ایسے بحری بیڑے تھے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان میں سے چار دوسری عالمی جنگ کے دوران تباہ ہوئے جب کہ دیگر کو اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Marine Nationale
اٹلی
اطالوی بحریہ کے پاس اس وقت دو طیارہ بردار بحری بیڑے ہیں جن میں سے ایک سن 1985 سے جب کہ دوسرا سن 2008 سے زیر استعمال ہے۔ اٹلی کا ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ سن 1944 میں ڈوب گیا تھا جب کہ ایک کو پچاس کی دہائی میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/B. Riegert
چین
چین نے تیرہ مئی 2018 کے روز مکمل طور پر ملک ہی میں تیار کردہ پہلے طیارہ بردار بحری بیڑے کو تجرباتی بنیادوں پر سمندر میں اتارا۔ اس سے قبل چینی بحریہ کے پاس ایک روسی ساختہ طیارہ بردار بحری بیڑہ موجود ہے جسے سن 1998 میں یوکرائن سے خریدا گیا تھا اور اسے بحال کر کے سن 2012 میں قابل استعمال بنا لیا گیا تھا۔
امریکی فوج کے پاس اس وقت دس طیارہ بردار بحری بیڑے زیر استعمال ہیں جب کہ ایک ریزرو میں بھی موجود ہے۔ امریکی بحری بیڑے طیاروں کی پرواز اور لینڈنگ کے حوالے سے بھی نہایت جدید ٹیکنالوجی کے حامل ہیں اور انہیں جوہری توانائی سے چلایا جاتا ہے۔ امریکا گزشتہ صدی کے دوران 56 بحری بیڑے اسکریپ کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
16 تصاویر1 | 16
امریکی صدر قبل ازیں 'نارڈ اسٹریم ٹو‘ نامی پائپ لائن پر اپنی خفگی کا اظہار کر چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ وہ جرمنی میں تعینات اپنے 9,500 فوجی نکالنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ پولستانی صدر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ امریکا پر یہ ذمہ داری کیوں عائد ہوتی ہے کہ وہ جرمنی کا روس سے دفاع کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ جرمن شہری بھی اس صورتحال پر خوش نہیں ہیں۔
یورپی دفاع
اس موقع پر پولستانی صدر انجے ڈوڈا نے امریکی صدر سے کہا کہ وہ اپنے فوجیوں کو یورپ سے نہ نکالیں کیونکہ ایسی صورت میں اس براعظم کی سلامتی غیر مستحکم ہو سکتی ہے: ''میں صدر سے کہتا ہوں کہ وہ یورپ سے اپنی فوج نہ نکالیں کیونکہ یورپ کی سلامتی میرے لیے اہم ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یورپ میں امریکی فوجی موجودگی وہاں امن و استحکام کا سبب بنی ہے اور یہ کہ پولینڈ مزید امریکی فوجیوں کی اپنے ہاں تعیناتی کے لیے تیار ہے۔
پہلی عالمی جنگ کے دور کی تصاویر میں رنگ بھر دیے گئے
پہلی عالمی جنگ کے سیاہ سفید تصاویر میں ٹیکنی کلر بھرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ اس مناسبت سے اُس دور کی چند تصاویر کو رنگین کیے جانے کے بعد دیکھیے۔
تصویر: TASCHEN
تباہی کی ثبوت
پہلی عالمی جنگ کے دوران فوٹوگرافی کو پروپیگنڈا کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس تصویر میں دریائے ماس کے کنارے واقع شہر ویردُو کی تباہی دکھایا گیا ہے۔ اس تصویر کو جرمن فوج نے فضا سے لیا تھا۔
تصویر: TASCHEN
پہلی عالمی جنگ کے اختتام کا پہلا غروب آفتاب
پیٹر والتھر کی کتاب ’پہلی عالمی جنگ رنگوں میں‘ میں 320 بلیک اینڈ وائٹ تصاویر کو رنگوں سے مزین کیا گیا۔ یہ یورپ کی مختلف حکومتوں کے ریکارڈ سے حاصل ہونے والی تصاویر ہیں۔ یہ تصویر فرانسیسی شہر پیرس میں چودہ جولائی سن 1920 کو کھینچی گئی تھی۔
تصویر: TASCHEN
رنگوں سے نیاپن
بیلک اینڈ وائٹ تصاویر کو رنگین کرنے کی تکنیک سن 1904 میں لومیئر برادرز نے دریافت کی تھی۔ یہ تصویر الزاس کے مقام پر تین اکتوبر سن 1915 کو لی گئی تھی۔
تصویر: TASCHEN/LVR LandesMuseum Bonn
محاذ پر
یہ تصویر سن 1916 میں شمال مشرقی فرانسیسی قصبے ویردو (Verdun) مقام کی ہے۔ اس میں ایک توپ گاڑی کو کھینچ کر لے جایا جا رہا ہے۔
تصویر: TASCHEN
عطیات کی اپیل
اس تصویر میں ایک فرانسیسی گولہ بارود کے مقام کو دکھایا گیا ہے۔ اسے سن 1918 میں کھینچا گیا تھا اور ایک امریکی کمیٹی کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ یہ تصویر امریکیوں کے لیے کھینچی گئی تھی تا کہ وہ جنگ کی ہولناکی کااحساس کرتے ہوئے بڑھ چڑھ کر چندہ دے سکیں۔
تصویر: Collection Mark Jacobs
ایک ذاتی فوٹو
پہلی عالمی جنگ کے دوران حکومتوں کے علاوہ عوام الناس کو بھی تصاویر بنانے کی اجازت دی گئی۔ سپاہیوں کو بھی فوٹو بناننے کی باضابطہ اجازت دی گئی تھی۔ اس تصویر میں ایک فرانسیسی فوجی اپنے مورچے میں کھڑا ہے۔
تصویر: TASCHEN/LVR LandesMuseum Bonn
فضائی جنگ
پہلی عالمی جنگ کے دوران پہلی مرتبہ فضائی جنگ کا تصور اور اس کی اہمیت محسوس کی گئی۔ ابتدا میں برطانوی اور فرانسیسی جنگی طیارے مشترکہ کارروائیں کرتے تھے۔ یہ تصویر مارن شہر کی جنگ کے دورن سن 1914 میں لی گئی تھی۔
تصویر: TASCHEN
ٹینک بھی میدان کارزار میں
پہلا ٹینک برطانیہ نے سن 1916 میں جنگ میں اتارا تھا۔ تصویر میں بھی برطانوی ٹینک دکھایا گیا ہے۔ یہ تصویر سن 1918 کی ہے۔ پہلے ٹینک کے بعد پہلی عالمی جنگ کے دوران ٹینکوں کا استعمال بتدریج بڑھتا گیا۔
تصویر: Collection Mark Jacobs
جنگ کی رفتار
پہلی عالمی جنگ کے دوران نت نئے ہتھیاروں کا استعمال تواتر سے کیا گیا۔ اس میں ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور ایمبیولینسوں سے لے کر زہریلی گیسوں کا استعمال تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران انجن سے چلنے والی گاڑیوں نے اگلے محاذوں کو انتہائی خطرناک بنا دیا تھا۔ تصویر میں سن 1914 کے دور کی ایمبیولینس دکھائی گئی ہے۔
تصویر: TASCHEN
آرٹ اور ثبوت
پہلی عالمی جنگ کے دوران لی گئی تصاویر جہاں ثقافتی ورثہ تصور کیا جاتا ہے وہاں اس جنگ کی تباہ کاریوں کا ثبوت بھی ہیں۔ پیٹر والتھر کی کتاب The First World War in Colour بیک وقت جرمن اور انگریزی میں شائع کی گئی ہے۔