امریکا جرمن سرزمین سے جوہری ہتھیار ہٹائے، ایس پی ڈی
3 مئی 2020
جرمنی کی اتحادی حکومت میں شامل جماعت ایس پی ڈی کے پارلیمانی سربراہ نے کہا ہے کہ امریکا جرمن سرزمین پر نصب جوہری ہتھیار ہٹائے۔ تاہم دیگر جماعتوں نے بدستور اس کی مخالفت کی ہے۔
اشتہار
جرمن کی دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے پارلیمانی سربراہ رالف مؤٹزینش کے بقول جرمن سرزمین پر امریکی جوہری ہتھیار، جرمنی کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اور اسی لیے انہیں ہٹایا جانا چاہیے۔
ایس پی ڈی وفاقی حکومت میں چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت سی ڈی یو کی اتحادی ہے۔ رالف مؤٹزینش نے جرمن اخبار 'ٹاگس اشپیگل ام زونٹاگ‘ کو بتایا، ''جرمن سرزمين پر جوہری ہتھیار ہماری سلامتی کو بڑھاتے نہیں، بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''اب وقت آ گیا ہے کہ جرمنی مستقبل میں ان کی تنصیب کی اجازت نہ دے۔‘‘ مؤٹزینش کے بقول اس طرح کی پیشرفت سے جرمنی کی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی رکنیت پر کوئی سوال نہیں اٹھے گا۔
امریکا کی بدلتی جوہری حکمت عملی
جرمن پارلیمان میں ایس پی ڈی کے پارلیمانی سربراہ نے اپنے اس مطالبے کی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار میں امریکا کی بدلتی ہوئی جوہری پالیسی کو قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظاميہ جوہری ہتھیاروں کو محض دفاعی ہتھیار نہیں سمجھتی بلکہ انہیں جارحانہ یا پہل کرنے کے ہتھیار سمجھتی ہے، جس کی وجہ سے کشیدگی میں اضافے کے خطرات 'بے حد‘ بڑھ جاتے ہیں۔
جرمن سر زمین پر امریکی جوہری ہتھیار گزشتہ کئی دہائیوں سے نصب ہیں۔ ان میں سے بہت سے تو سرد جنگ کے زمانے سے موجود ہیں جنہیں روس کے خلاف سدباب یا دفاعی انتظام سمجھا جاتا تھا۔
رالف مؤٹزینش کا یہ بیان جرمن وزیر دفاع آنے گریٹ کرامپ کارین باؤر کی اس تجویز کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جرمن فوج کے اس وقت زیر استعمال ٹورناڈو لڑاکا طیاروں کو یورو فائٹر یا امریکی ایف 18 ملٹی رول لڑاکا طیاروں سے بدل دینا چاہیے۔ ایف 18 جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ کارین باؤر کی یہ تجویز دراصل نیٹو کی اس شرط کے مطابق ہے کہ جوہری ہتھیار نہ رکھنے والے رکن ممالک کو بھی جوہری دفاعی حکمت عملی میں شریک ہونے کے لیے تیار کیا جائے۔
غلط وقت پر غلط اشارہ
ایس پی ڈی کے پارلیمانی سربراہ کے بیان پر نہ صرف سی ڈی یو کے ارکان پارلیمان نے تنقید کی ہے بلکہ کاروبار دوست سیاسی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کی طرف سے بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایف ڈی پی کے دفاعی معاملات سے متعلق خاتون ترجمان ماری آگنس اسٹراک زمرمان کے بقول، ''ایس پی ڈی کے پارلیمانی سربراہ مؤٹزینش کا مطالبہ غلط وقت پر غلط اشارہ ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کے درمیان دفاع اور سلامتی سے متعلق پالیسی پر لڑائی دنیا میں جرمنی کی ساکھ کو متاثر کر رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ خیال کرنا نا سمجھی ہے کہ اگر جوہری ہتھیار جرمن سرزمین سے ہٹا لیے جاتے ہیں تو نیٹو کی جوہری حکمت عملی پر جرمنی کے اثر و رسوخ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘
ایف ڈی پی کی اس ترجمان کے مطابق اگر جرمنی کو نیٹو اتحاد میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہیں تو اسے فی الفور ٹارنیڈو طیاروں کے نعم البدل کے بارے میں جلد فیصلہ کرنا چاہیے۔
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟
دنیا بھر میں اس وقت نو ممالک کے پاس قریب سولہ ہزار تین سو ایٹم بم ہیں۔ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے مطالبات کے باوجود یہ تعداد کم نہیں ہو رہی۔ دیکھتے ہیں کہ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: AP
روس
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kolesnikova
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 7300 ایٹم بم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kaminski
پاکستان
پاکستان کے پاس ایک سو سے ایک سو بیس کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سن 1998ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اسلام آباد حکومت کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔