امریکا، جنوبی کوریا کی بڑی فوجی مشقوں کی روایت بھی ’جلد ختم‘
17 جون 2018
امریکا اور جنوبی کوریا اپنی بہت بڑی مشترکہ فوجی مشقوں کی روایت کی مستقل معطلی کا اعلان غالباﹰ اسی ہفتے کر دیں گے۔ یہ دیرپا معطلی تب تک جاری رہے گی، جب تک شمالی کوریا خود کو غیر ایٹمی بنانے کے اپنے وعدے پر قائم رہے گا۔
اشتہار
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول سے اتوار سترہ جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق جنوبی کوریا اور امریکا کا اس بارے میں ایک مشترکہ فوجی اعلان اسی ہفتے متوقع ہے۔ خبر رساں ادارے یونہاپ نے بتایا کہ کئی عشروں سے وقفے وقفے سے ہزاروں کی تعداد میں امریکی اور جنوبی کوریائی فوجیوں کی طرف سے کی جانے والی ایسی بڑی مشترکہ عسکری مشقوں کی معطلی کے دو طرفہ فیصلے میں یہ شق شامل ہو گی کہ اگر کمیونسٹ شمالی کوریا نے خود کو غیر ایٹمی بنانے کے اپنے وعدے پر عمل درآمد نہ کیا، تو ان وسیع تر روایتی فوجی مشقوں کا سلسلہ بحال کر دیا جائے گا۔
جنوبی کوریائی نیوز ایجنسی یونہاپ نے سیئول میں ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار کا نام لیے بغیر حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس ممکنہ فیصلے سے امریکا اور جنوبی کوریا کے مابین بڑی زمینی، فضائی اور بحری فوجی مشقیں ہی متاثر ہوں گی، اور معمول کی چھوٹی عسکری مشقیں آئندہ بھی کی جاتی رہیں گی۔
اس پیش رفت کی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کے مابین سنگاپور میں ہونے والی وہ تاریخی ملاقات بنی، جس میں بارہ جون کو دونوں رہنماؤں نے آپس میں جامع مذاکرات کیے تھے۔ اسی ملاقات کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ کم جونگ اُن ایک بہت ذہین انسان ہیں اور وہ مستقبل میں انہیں امریکا کا دورہ کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت بھی دیں گے۔
اسی تاریخی سمٹ کے بعد صدر ٹرمپ نے سیئول اور واشنگٹن میں اعلیٰ حکام کو اس وقت حیران کر دیا تھا، جب انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ امریکا اور جنوبی کوریا کے مابین جنگی مشقوں یا ’وار گیمز‘ کو ختم کر دیں گے۔
صدر ٹرمپ نے تب اپنے اس اعلان کی کوئی مزید وضاحت نہیں کی تھی اور اسی لیے امریکا اور جنوبی کوریا میں حکام اس وجہ سے تذبذب میں تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کون سی ’وار گیمز‘ کو ختم کرنے کی بات کی ہے۔
اب اس حوالے سے یہ اشارے واضح ہوتے جا رہے ہیں کہ ٹرمپ کی مراد امریکا اور جنوبی کوریا کے دستوں کی وہ بڑی مشترکہ فوجی مشقیں تھیں، جن کی اپنی ہی ایک روایت ہے۔ اس بارے میں جنوبی کوریائی صدر مون جے ان نے جمعرات چودہ جون کو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اگر شمالی کوریا اپنے ایٹمی اور بیلسٹک میزائل پروگراموں کے خاتمے کی کوششوں میں مخلص ثابت ہوا، تو سیئول حکومت بھی اس بارے میں لچک کا مظاہرہ کرے گی کہ پیونگ یانگ پر مسلسل بہت زیادہ فوجی دباؤ نہ ڈالا جائے۔
ماہرین کے نزدیک اس بیان کا بین السطور میں مطلب شاید یہی تھا کہ واشنگٹن اور سیئول اپنی بڑی فوجی مشقوں کی روایت کو خیرباد کہہ سکتے ہیں۔ اب ان دونوں ممالک کی طرف سے اس بارے میں ایک مشترکہ اعلان ممکنہ طور پر اسی ہفتے کر دیا جائے گا۔
م م / ص ح / روئٹرز
جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
شمالی کوریائی رہنما کے بقول ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا۔ اپنے اولین دورہ جنوبی کوریا کے دوران انہوں نے کہا کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کی خاطر بھرپور تعاون کیا جائے گا۔
تصویر: Reuters
پہلا قدم
کم جونگ اُن پہلے شمالی کوریائی رہنما ہیں، جنہوں نے کوریائی جنگ میں فائر بندی کے 65 برس بعد جنوبی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھا۔ کم نے کہا کہ جنوبی کوریا داخل ہوتے ہی وہ ’جذبات کی ایک بڑی لہر میں بہہ نکلے‘۔ جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن سرحد پر کم جونگ اُن کا استقبال کرنے کو موجود تھے۔ ان دونوں رہنماؤں کی سمٹ کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: KOCIS
نئے تعلقات کے آغاز کا عہد
کیمونسٹ رہنما کم جون اُن نے کہا کہ وہ ہمسایہ ملک جنوبی کوریا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی ایک نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں۔ سن انیس سو ترپن میں کوریائی جنگ کے خاتمے کے بعد سے پہلی مرتبہ کسی شمالی کوریائی رہنما نے جنوبی کوریا کا دورہ کیا ہے۔ جب کم جونگ اُن نے جنوبی کوریا کی سرحد عبور کی تو جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن نے ان کا استقبال کیا۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
تاریخی مصافحہ
جنوبی کوریا داخل ہونے پر اُن نے اِن سے ہاتھ ملایا۔ اس موقع پر کم نے کہا کہ یہ مصافحہ خطے میں قیام امن کی طرف ’افتتاحی قدم‘ ہے۔ کم جونگ اُن کی طرف سے جوہری اور میزائل پروگرام منجمد کرنے کے اعلان کے بعد جزیرہ نما کوریا پر کشیدگی کا خاتمہ ہوتا ممکن نظر آ رہا ہے۔ چین اور امریکا نے بھی دونوں کوریائی ممالک کے رہنماؤں کے مابین اس براہ راست ملاقات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
شمالی کوریائی وفد
جنوبی کوریا کا دورہ کرنے والے شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن کے ساتھ ان کی ہمشیرہ اور قریبی مشیر کم یو جونگ کے علاوہ کمیونسٹ کوریا کے بین الکوریائی تعلقات کے شعبے کے سربراہ بھی تھے۔ اسی طرح جنوبی کوریائی صدر کے ہمراہ ان کے ملک کے انٹیلیجنس سربراہ اور چیف آف سٹاف بھی تھے۔
تصویر: KOCIS
’ہم ایک قوم ہیں‘
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن کے ساتھ سمٹ میں کہا، ’’اس میں کوئی منطق نہیں کہ ہم آپس میں لڑیں۔ ہم تو ایک ہی قوم ہیں۔ چند ماہ قبل کم جونگ اُن کی طرف سے ایسے کلمات سننے کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ جنوبی کوریا میں کئی حلقے اس سمٹ پر محتاط انداز سے ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک بنانے میں کئی رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں۔
تصویر: KOCIS
ایٹمی ہتھیاروں کا معاملہ
اس سمٹ کے پہلے دور میں دونوں لیڈروں نے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے علاوہ قیام امن کے امکانات پر بھی بات چیت کی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جنوبی کوریائی صدر مُون جے اِن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے جزیرہ نما کوریا کو غیر ایٹمی خطہ بنانے کے موضوع پر انتہائی سنجیدگی اور ایمانداری سے تبادلہ خیال کیا۔
تصویر: KOCIS
عالمی برداری خوش
1953ء میں کوریائی جنگ میں فائر بندی کے بعد سے مجموعی طور پر یہ تیسرا موقع ہے کہ شمالی اور جنوبی کوریائی رہنماؤں کی آپس میں کوئی ملاقات ہوئی۔ جاپان، چین اور روس نے اس ملاقات کو خطے میں قیام امن کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters
مذاکرات جاری رہیں گے
اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک تمام شعبوں میں مذاکراتی عمل جاری رکھیں گے اور اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے تمام بین الاقوامی معاہدوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا اور دونوں ریاستوں کے مابین سفری پابندیوں کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی، کم
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ ان کا ملک ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرائے گا۔ اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کے لیے پیونگ یانگ حکومت مکمل تعاون کرے گی۔ طے پایا ہے کہ دونوں ممالک اس تناظر میں جامع مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔ تاہم اس بارے میں تفصیلات عام نہیں کی گئیں۔
تصویر: KOCIS
مون جے اِن شمالی کوریا جائیں گے
اس سمٹ کے بعد جنوبی کوریائی صدر کے دفتر کی طرف سے بتایا گیا کہ صدر مون جے اِن شمالی کوریا کا دورہ کریں گے۔ ممکنہ طور پر وہ رواں برس موسم خزاں میں یہ دورہ کریں گے، جہاں وہ شمالی کوریائی رہنما کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ مون جے اِن کے اس آئندہ جوابی دورے کو بھی دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Alexander Freund
مقامی آبادی خوش
کم جونگ اُن کی جنوبی کوریا آمد پر کوریائی باشندوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے پہلی مرتبہ کم کو دیکھا اور براہ راست سنا۔ اس موقع پر کئی افراد نے خصوصی لباس بھی زیب تن کر رکھا تھا۔ دونوں سربراہان نے جنوبی کوریائی علاقے میں واقع سرحدی گاؤں پان مُون جوم میں قائم ’پیس ہاؤس‘ یا ’ایوان امن‘ میں ملاقات کی۔