’امریکا جنگ نہیں چاہتا‘ مگر اس کی ’کوئی حکمت عملی بھی نہیں‘
3 جنوری 2020
ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل سلیمانی کی عراق میں ایک امریکی حملے میں ہلاکت کے بعد سلامتی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ’امریکا ایران سے کوئی جنگ نہیں چاہتا‘ مگر اس کی ’اپنی کوئی حکمت عملی بھی نہیں ہے‘۔
اشتہار
جنرل قاسم سلیمانی اور کئی دیگر سرکردہ عراقی اور ایرانی شخصیات آج جمعہ تین جنوری کو عراق میں کیے گئے ایک امریکی فضائی حملے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔ اس بارے میں امریکا کی ایک خاتون سیاسی تجزیہ کار ریچل رِیزو نے ڈی ڈبلیو ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کو اب اپنے نیشنل سکیورٹی ڈھانچے کے ساتھ بیٹھ کر اطمینان سے اس بات پر غور کرنا ہو گا کہ وہ خود کو ایرانی ردعمل کے لیے تیار کیسے کریں۔
'جلد یا بدیر لیکن ایرانی ردعمل لازمی‘
ریچل رِیزو نے کہا، ''یہ لازمی نہیں کہ اپنے اس جنرل کی ہلاکت پر ایران اپنا ردعمل فوراﹰ ظاہر کرے۔ لیکن ایسا بہرحال ہو گا ضرور۔ امریکا میں کسی بھی نئی جنگ سے متعلق ہچکچاہٹ پائی جاتی ہے۔ ایران کے ساتھ جنگ تو کوئی بھی نہیں چاہتا۔ اس پر امریکا میں تفصیلی سیاسی رائے بھی پارٹی بنیادوں پر بٹی ہوئی نظر آتی ہے۔‘‘
اس امریکی تجزیہ نگار نے ڈی ڈبلیو ٹی وی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا، ''اب یہ امریکی کانگریس کا کام ہو گا کہ وہ اپنی پوری کوشش کرے کہ ایران کے ساتھ کوئی بھرپور جنگ شروع نہ ہو۔ اس لیے کہ امریکا میں نہ تو کوئی یہ جنگ چاہتا ہے اور نہ ہی کوئی اس کے لیے تیار ہے۔‘‘
'امریکا کی تو کوئی حکمت عملی ہے ہی نہیں‘
جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں جرمنی کے ادارہ برائے بین الاقوامی اور سلامتی امور کے ماہر گِیڈو شٹائن بیرگ نے کہا، ''ایران نے حالیہ برسوں میں اپنی توسیع پسندانہ سوچ کے تحت جو کچھ بھی کیا، اس میں جنرل سلیمانی کی اہمیت جنتی بھی زیادہ بیان کی جائے، وہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔‘‘
شٹائن بیرگ نے کہا، ''اگلا منطقی قدم اب یہ ہو گا کہ ایرانی امریکیوں کو ہلاک کرنے کی کوشش کریں گے۔ فوری طور پر نہیں مگر شاید چند ماہ بعد۔ ساتھ ہی ایران امریکا کو عراق سے نکال باہر کرنے کے لیے بھی اپنی پوری کوشش کرے گا۔ کئی عراقی سیاستدان جنرل سلیمانی کو حالیہ برسوں کے دوران عراق میں موجود بااثر ترین شخصیت قرار دے چکے تھے۔ یہاں تک کہ کسی بھی عراقی کے لیے اپنے ملک کا وزیر اعظم بننے کی خاطر بھی قاسم سلیمانی کی رضامندی درکار ہوتی تھی۔‘‘
بین الاقوامی سلامتی امور کے جرمن ماہر گِیڈو شٹائن بیرگ نے ایران اور امریکا کے مابین کھچاؤ میں جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد آنے والی تازہ ترین شدت کے پس منظر میں کہا، ''امریکا کی (ایران کے حوالے سے) تو کوئی حکمت عملی ہی نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ دباؤ تو کوئی اسٹریٹیجی نہیں ہوتی۔‘‘
م م / ع ح (ڈی ڈبلیو ٹی وی)
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔