امریکا خاشقجی قتل پر آئندہ ہفتے حتمی رپورٹ جاری کر دے گا
18 نومبر 2018
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر سی آئی اے کی رپورٹ کے تناظر میں کہا ہے کہ امریکا آئندہ ہفتے کے آغاز میں اس قتل پر حتمی نتائج تک پہنچ جائے گا اور اس حوالے سے رپورٹ جاری کر دی جائے گی۔
اشتہار
ہفتہ 17 نومبر کو امریکی میڈیا نے بتایا تھا کہ سی آئی اے اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ خاشقجی کو قتل کرنے والے اسکواڈ کا براہ راست تعلق شہزادہ محمد بن سلمان سے ہے۔ خیال رہے کہ سعودی عرب نے جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے اپنے بیانیے کو بارہا تبدیل کیا ہے۔ پہلے یہ کہا گیا تھا کہ ریاض حکومت کو جمال خاشقجی کے بارے میں علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور بعد ازاں سعودی مستغیث اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق خاشقجی قونصل خانے میں دست بدست لڑائی کے دوران مارے گئے۔جمال خاشقجی کو استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں دو اکتوبر کو قتل کر دیا گیا تھا۔
کیلیفورنیا میں میلبو کے مقام پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا، ’’ہم آئندہ دو روز میں سعودی صحافی کے قتل کے حوالے سے حتمی اور مکمل رپورٹ جاری کر دیں گے۔ غالباﹰ پیر یا منگل تک۔‘‘
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیتھر نوئرٹ پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ ایسی رپورٹیں کہ امریکی حکومت اس بارے میں حتمی رپورٹ پہلے ہی سے وضع کر چکی ہے، ’نا درست‘ ہیں۔ اُن کے بقول ابھی خاشقجی کی ہلاکت سے متعلق بہت سے سوال جواب طلب ہیں۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سی آئی اے کو یقین ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا براہ راست حکم دیا۔
واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کی تصدیق خبر رساں ادارے روئٹرز اور امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بھی کی ہے جنہوں نے اپنے ذرائع کا حوالہ دیا تاہم ان کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔ روئٹرز کے مطابق سی آئی اے نے دیگر حکومتی محکموں کو اس بارے میں بریفنگ بھی دی ہے۔
یہ رپورٹ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی ان کوششوں کے لیے ایک دھچکا قرار دی گئی جو اپنے اتحادی ملک سعودی عرب پر سیاسی دباؤ کم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
دوسری جانب اس قتل اور اس کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر ہونے والے احتجاج کے سبب واشنگٹن اور اس کے دیرینہ اتحادی سعودی عرب کے آپسی تعلقات کے متاثر ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ اس معاملے پر بحث اب بند کی جائے اور اسی لیے اس نے بین الاقوامی انکوائری کے مطالبے کو بھی رد کر دیا ہے۔
ادھر جرمن دفتر خارجہ کے ایک بیان کے مطابق جرمنی اور یورپی یونین بھی سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے سعودی وضاحت پر مطمئین نہیں ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یورپی یونین چاہتی ہے کہ ریاض حکومت اس بارے میں شفاف حکمت عملی اختیار کرے۔ جرمن وزارت خارجہ کے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ملکی وزیر خارجہ ہائیکو ماس اور اُن کے یورپی یونین کے ہم منصب اس تناظر میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیدریکا موگیرینی کے اس بیان کی حمایت کرتے ہیں جس میں انہوں نے خاشقجی قتل کی شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
ص ح / ا ب ا / نیوز ایجنسی
جمال خاشقجی: پراسرار انداز میں گمشدگی اور ہلاکت
سعودی حکومت نے جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بیانات کئی مرتبہ تبدیل کیے۔ وہ دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں گئے اور لاپتہ ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Martin
کیا ہوا میں تحلیل ہو گئے؟
دو اکتوبر: سعودی عرب کے اہم صحافی جمال خاشقجی استنبول میں اپنے ملکی قونصل خانے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں چند ضروری کاغذات لینے قونصلیٹ گئے تھے۔ اُن کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر اُن کا انتظار کرتی رہیں اور وہ لوٹ کے نہیں آئے۔
تصویر: Reuters TV
قونصل خانے میں موجودگی کے بارے میں معلومات نہیں
تین اکتوبر: ترک اور سعودی حکام نے جمال خاشقجی کے حوالے سے متضاد بیانات دیے۔ سعودی دارالحکومت ریاض سے کہا گیا کہ صحافی خاشقجی اپنے کام کی تکمیل کے بعد قونصل خانے سے رخصت ہو گئے تھے۔ ترک صدر کے ترجمان نے اصرار کیا کہ وہ قونصل خانے کی عمارت کے اندر ہی موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
قتل کے دعوے
چھ اکتوبر: ترک حکام نے کہا کہ اس کا قوی امکان ہے کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے میں ہلاک کر دیا گیا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ترک تفتیش کار ایک پندرہ رکنی سعودی ٹیم کی ترکی آمد کا کھوج لگانے میں مصروف ہے۔ یہی ٹیم قونصل خانے میں قتل کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ترک حکومت کو ثبوت درکار ہیں
آٹھ اکتوبر: ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ جمال خاشقجی کے قونصل خانے سے رخصت ہونے کے ثبوت مہیا کرے۔ اسی دوران ترکی نے سعودی قونصل خانے کی تلاشی لینے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی مقتول صحافی کی حمایت میں بیان دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Kovacs
’صحرا میں ڈاووس‘
بارہ اکتوبر: برطانیہ کے ارب پتی رچرڈ برینسن نے خاشقجی کی ہلاکت کے بعد اپنے ورجن گروپ کے خلائی مشن میں سعودی عرب کی ایک بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کو روک دیا۔ اسی طرح انہوں نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ سعودی عرب نے اس کانفرنس کو ’صحرا میں ڈاووس‘ کا نام دیا تھا۔ رچرڈ برینسن کے بعد کئی دوسرے سرمایہ کاروں نے بھی شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرچ آپریشن
پندرہ اکتوبر: ترک تفتیش کاروں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کو تلاش کرنے کا ایک آپریشن بھی کیا۔ یہ تلاش آٹھ گھنٹے سے بھی زائد جاری رکھی گئی۔ عمارت میں سے فورینزک ماہرین نے مختلف نمونے جمع کیے۔ ان میں قونصل خانے کے باغ کی مٹی اور دھاتی دروازے کے اوپر سے اٹھائے گئے نشانات بھی شامل تھے۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
دست بدست لڑائی کے بعد ہلاکت
انیس اکتوبر: انجام کار سعودی عرب نے تسلیم کر لیا کہ کہ قونصل خانے میں خاشقجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ سعودی مستغیث اعلیٰ کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ قونصل خانے میں دست بدست لڑائی کے دوران خاشقجی مارے گئے۔ اس تناظر میں سعودی عرب میں اٹھارہ افراد کو گرفتار کرنے کا بھی بتایا گیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس افسوس ناک اور دردناک واقعے کی تفتیش جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
’انتہائی سنگین غلطی‘
اکیس اکتوبر: جمال خاشقجی کی ہلاکت کے حوالے سے سعودی موقف میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے قونصل خانے میں صحافی کی ہلاکت کو ’شیطانی آپریشن‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔ انہوں نے اس سارے عمل کو ایک بڑی غلطی سے بھی تعبیر کیا۔ الجبیر نے مزید کہا کہ سعودی ولی عہد اس قتل سے پوری طرح بے خبر تھے۔ انہوں نے خاشقجی کی لاش کے حوالے سے بھی لاعلمی ظاہر کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Owen
جرمنی نے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی
اکیس اکتوبر: جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کے تناظر میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی معطل کر دی۔ سعودی عرب کو ہتھیار اور اسلحے کی فروخت میں جرمنی کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے۔ بقیہ ممالک میں امریکا، برطانیہ اور فرانس ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
گلا گھونٹا گیا اور پھر تیزاب میں تحلیل کر دیا
اکتیس اکتوبر: ترک پراسیکیوٹر نے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جمال خاشقجی کو پہلے گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا اور پھر اُن کے جسم کو تیزاب میں تحلیل کر دیا گیا۔ ترک صدر نے اس حوالے سے یہ بھی کہا کہ خاشقجی کو ہلاک کرنے کا حکم سعودی حکومت کے انتہائی اعلیٰ حکام کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. E. Yildirim
اقوام متحدہ میں سعودی عرب پر تنقید
اقوام متحدہ میں جمال خاشقجی کے قتل کی گونج سنی گئی اور کئی رکن ریاستوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی ادارے کو سعودی حکومت نے بتایا کہ خاشقجی کے قتل کی تفتیش جاری ہے اور ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ سعودی حکومت کا یہ موقف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکا سمیت کئی ممالک کی جانب سے شفاف تفتیش کے مطالبے کے بعد سامنے آیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini
Fiancee in mourning
خاشقجی کی منگیتر کا غم
آٹھ نومبر: مقتول صحافی جمال خاشقجی کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیر نے ٹویٹ میں کہا کہ وہ اس غم کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ خاشقجی کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر ختم کر دیا گیا۔ خدیجہ چنگیر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ قاتل اور اس قتل کے پس پردہ لوگ کیا واقعی انسان ہیں؟