امریکا: خفیہ ایجنسیوں کی نگرانی کا پروگرام غیر قانونی تھا
3 ستمبر 2020
امریکی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے عوام کی نگرانی کیے جانے سے متعلق، جس پروگرام کا انکشاف ایڈورڈ سنوڈن نے کیا تھا، اسے ایک وفاقی عدالت نے بھی اپنے اہم فیصلے میں غیر قانونی قرار دیا ہے۔
امریکا میں ایک وفاقی عدالت نے نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کی جانب سے خفیہ طورعوام کی نگرانی کے پروگرام کو غیر قانونی بتایا ہے۔
امریکی شہری ایڈورڈ سنوڈن بھی اسی محکمے میں کام کرتے تھے اور انہوں نے ہی نگرانی کے اس متنازعہ خفیہ پروگرام کا پردہ فاش کیا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں اس پروگرام کو غیر آئینی تو نہیں قرار دیا، تاہم ممکنہ طور پر آئین کی خلاف ورزی ضرور بتایا۔
اس خفیہ پروگرام کے تحت امریکا کی تمام مواصلاتی کمپنیاں این ایس اے کو اپنا ڈیٹا فراہم کرتی تھیں اور پھر خفیہ ایجنسی ڈیٹا کی تفتیش اور اس کی چھان بین کے لیے اس کا تجزیہ کرتی تھی۔ امریکی کورٹ آف اپیل نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ پروگرام 'فارن اینٹلیجنس سرویلنس ایکٹ' کے بالکل منافی ہے اور بہت ممکن ہے کہ یہ عمل آئین کے خلاف ہو۔
این ایس اے کی ان خفیہ سرگرمیوں کا کسی کو بھی علم نہیں تھا اور پھر اسی محکمے سے وابستہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر ایڈورڈ سنوڈن نے اس کو بے نقاب کر دیا تھا۔ انہوں نے اس کا پردہ فاش کیا اور شاید وہ نتائج سے آگاہ تھے اسی لیے وہ امریکا چھوڑ کر روس فرار ہو گئے تھے۔ قانون نافذ کرنے والے امریکی اداروں نے اس بات پر سنوڈن کے خلاف کیس درج کر لیا تھا۔
این ایس اے کی ان خفیہ سرگرمیوں کا کسی کو بھی علم نہیں تھا اور پھر اسی محکمے سے وابستہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر ایڈورڈ سنوڈن نے اس کو بے نقاب کر دیا تھاتصویر: picture-alliance/MAXPPP/Kyodo
امریکی عدالت کے فیصلے کے رد عمل میں سنوڈن نے ٹویٹر پر لکھا، ''سات برس قبل جب اس کی خبر آئی تھی تو سچ بولنے کے لیے مجھ پر مجرمانہ قسم کے مقدمات دائر کیے گئے تھے۔ میں نے کبھی تصور بھی نہیں تھا کہ ہماری عدالتیں این ایس اے کی سرگرمیوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دیں گی اور اسی فیصلے میں اس کو بے نقاب کرنے کے لیے میری پذیرائی بھی ہو گی۔ لیکن بہرحال وہ دن آہی گیا۔'' سنوڈن پر تاہم اب بھی امریکا میں جاسوسی کرنے جیسے مقدمات قائم ہیں۔
ابتداء میں جب این ایس اے سے متعلق ایسی چیزوں کا پردہ فاش ہوا تو خفیہ ادارے نے پہلے تو اس بات سے صریحاً انکار کردیا تھا کہ اس نے نگرانی کے پروگرام کے تحت امریکی شہریوں سے متعلق معلومات جمع کی ہیں تاہم بعد میں حکام نے یہ تسلیم کیا کہ اس طرح کی جاسوسی سے ملکی سطح پر انتہا پسندی پر قابو پانے میں کافی مدد ملی ہے۔
اس سلسلے میں ادارے نے کلیفورینا کے رہائشی بسعلی سعید معلن، احمد ناصر تعلیل محمد، محمد محمد اور عیسی ضریح کے کیس کو عدالت میں بطور مثال پیش کیا تھا جنہیں صومالیہ میں شدت پسند تنظیم الشباب کی فنڈنگ کے لیے قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔ امریکی شہریوں پر جاسوسی کے این ایس اے کے اس پروگرام کی بنیاد پر ہی ان افراد کو سزا مل سکی تھی، تاہم وفاقی حکومت کے اس فیصلے کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
امریکا میں انسانی حقوق کی تنظیموں، مثلاً ' دی امریکن سیول لبریٹیز یونین' نے وفاقی عدالت کے اس فیصلے کا خیرم مقدم کرتے ہوئے اسے عوام کے پرائیویسی حقوق کی فتح بتایا ہے۔ ادارے کا کہنا تھا، ''ایک وفاقی اپیل کورٹ نے اپنے فیصلے میں این ایس اے کی جانب سے امریکی شہریوں کے تمام فون ڈیٹا جمع کرنے کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ اس فیصلے نے انہی باتوں کی تصدیق کی ہے جو ہمیں بہت پہلے سے معلوم تھیں۔ یہ ہمارے پرائیوسی حقوق کی جیت ہے۔''
ص ز/ ج ا
خفیہ معلومات عام کرنا، سلسلہ نیا نہیں
امریکی خفیہ ادارے کی طرف سے انٹرنیٹ کے ذریعے نگرانی کے پروگرام کے بارے میں میڈیا کو مطلع کرنے والے ایڈورڈ سنوڈن مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ تاہم وہ خفیہ معلومات عام کرنے والے پہلے اہلکار نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters
ایڈورڈ سنوڈن، ہیرو یا غدار
بہت سے لوگوں کے لیے ایڈورڈ سنوڈن ایک ہیرو ہے تاہم امریکی حکومت کی نظر میں وہ ایک غدار ہے کیونکہ اس نے ملکی خفیہ ایجنسی کی طرف سے انٹرنیٹ نگرانی کے پروگرام کی تفصیلات میڈیا کو دی تھیں۔ امریکا اس وقت سنوڈن کے خلاف قانونی کارروائی کی غرض س اُسے وطن واپس لانے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images
شرمندگی کی وجہ بننے والا بریڈلی میننگ
امریکی فوجی ایڈروڈ بریڈلی میننگ کو مئی 2010ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے خفیہ معلومات عام کرنے والی ویب سائٹ وِکی لیکس کو خفیہ ویڈیوز اور دستاویزات فراہم کی تھیں۔ وکی لیکس پر ان دستاویزات کی اشاعت سے امریکا کو عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خفیہ معلومات عام کرنے کا آغاز کرنے والے
1974ء میں ایف بی آئی کے نائب صدر مارک فیلٹ مہینوں تک واشنگٹن پوسٹ کے دو رپورٹرز کو یہ تفصیلات فراہم کرتے رہے کہ کس طرح اس وقت کے صدر رچرڈ نکسن اپنی انتخابی مہم کے دوران اپوزیشن ڈیموکریٹس کی جاسوسی کرا رہے ہیں۔ صدر نکسن کو اسی معاملے پر استعفیٰ دینا پڑا تھا مگر مارک فیلٹ 33 برس تک اس حوالے سے گمنام رہا۔
تصویر: AP
واٹر گیٹ اسکینڈل کی معلومات
امریکی تاریخ کے ایک اہم اسکینڈل واٹر گیٹ کی تفصیلات منظر عام پر لانے کا سہرا عام طور پر واشنگٹن پوسٹ کے دو رپورٹرز بوب وڈورڈز اور کارل بیرنسٹائن کے سر باندھا جاتا ہے۔ تاہم ان کو اس اسکینڈل کی تفصیلات فراہم کرنے کے پیچھے بھی مارک فیلٹ کا ہاتھ تھا۔ فیلٹ نے 2005ء میں ان حوالوں سے اپنی شناخت عام کی۔ ان کا انتقال 2008ء میں ہوا۔
تصویر: AP
روس میں خفیہ معلومات عام کرنے والے کا انجام
مارچ 2013ء میں لی گئی اس تصویر میں خفیہ معلومات عام کرنے والے روسی ایجنٹ سیرگئی لیونیڈووچ ماگنٹزکی کے وکلاء عدالت میں خالی پنجرے کے پاس بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔ ملزم 2009ء میں ماسکو جیل میں پراسرار حالات میں ہلاک ہو گیا تھا۔ اس ایجنٹ نے ریاستی انتظام میں چلنے والی کمپنیوں میں بدعنوانی سے میڈیا کو آگاہ کیا تھا۔ اس پر مبینہ ٹیکس فراڈ کا مقدمہ بنایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters
ٹیکس چوروں کی معلومات
سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے سابق بینک منیجر رڈولف ایلمر نے 2011ء میں ایسے دو ہزار اکاؤنٹس کا ڈیٹا وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کو فراہم کیا تھا، جن کے بارے میں شبہ تھا کہ ان اکاؤنٹس ہولڈرز نے ٹیکس چوری کی ہے۔ سوئس حکام کی طرف سے ایلمر کے خلاف بینک کی خفیہ معلومات عام کرنے پر مقدمہ قائم کیا گیا جبکہ جولیان اسانج آج بھی جنسی تشدد کے مقدمے میں سویڈن کو مطلوب ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
خفیہ معلومات عام کرنے والوں کے تحفظ کا یورپی قانون
یورپی یونین کے ایک اہلکار پال فان بوئیٹینن نے 1996ء میں یونین کے اعلیٰ اہلکاروں کی طرف سے مالیاتی بے قاعدگیوں کی معلومات عام کیں، جس کے بعد یورپی یونین کے تمام 17 کمشنروں کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ یورپی کمیشن کی طرف سے فان بوئیٹینن کو بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد سال 2000ء میں یورپی یونین میں ایک قانون کے ذریعے ایسے افراد کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، جوبے قاعدگیاں عام کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images
مشکوک حادثہ
کیرن سلک وُڈ اوکلاہوما کے پلوٹونیم ری پراسیسنگ پلانٹ میں کام کرتی تھیں، جہاں انہوں نے سکیورٹی کے حوالے سے بڑی خامیوں کی نشاندہی پر مبنی اپنی رپورٹ تیار کی۔ وہ یہ رپورٹ میڈیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے اپنی گاڑی پر جا رہی تھیں، جب ان کی کار کو حادثہ پیش آیا اور وہ اس میں ہلاک ہو گئیں۔ اس حادثے کی وجہ شدید تھکاوٹ قرار پائی۔
تصویر: picture-alliance/UPI
اسرائیلی جوہری پروگرام منظر عام پر لانے والے
اسرائیلی شہری مورڈیخائی وانونو نے 1986ء میں لندن سنڈے ٹائمز میں اپنے ایک مضمون میں اسرائیلی پروگرام کے بارے میں دنیا کو آگاہ کیا۔ ابھی یہ مضمون چھپا بھی نہیں تھا کہ انہیں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے اغوا کر لیا۔ انہیں 18 برس تک پس زنداں رکھا گیا۔ 2004ء میں اپنی رہائی کے بعد ان کا کہنا تھا کہ امن کی بحالی اور جوہری ہتھیاروں کے خلاف ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔ انہیں اسرائیل چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
ماسکو ایئرپورٹ کا ٹرانزٹ زون
ہانگ کانگ سے ماسکو پہنچنے کے بعد سے سنوڈن اس ایئرپورٹ کے ٹرانزٹ زون تک ہی محدود ہیں۔ امریکی حکومت کی ہر ممکن کوشش ہے کہ سنوڈن کو کسی اور ملک میں سیاسی پناہ نہ دی جائے۔ ایکواڈور کی حکومت کو امریکا کی طرف سے یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ اگر سنوڈن کو سیاسی پناہ دی گئی تو اس سے جاری آزاد تجارت سے متعلق مذاکرات معطل کر دیے جائیں گے۔