دائیں بازوسے تعلق رکھنے پر فوجیوں کو ڈیوٹی سے ہٹا دیا گیا
20 جنوری 2021
امریکی حکام نے جو بائیڈن کی افتتاحی تقریب کی حفاظت پر مامور کیے گئے نیشنل گارڈ کے تمام ارکان کی اچھی طرح سے چھان بین کرنے کے بعد بارہ فوجیوں کو ڈیوٹی سے ہٹا دیا۔
اشتہار
امریکی حکام نے منگل کے روز کہا کہ فوج نے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی حلف برداری تقریب کے تحفظ کیے لیے تعینات کیے گئے پچیس ہزار نیشنل گارڈ میں سے ان بارہ ارکان کو ڈیوٹی سے ہٹا دیا ہے جن کے بارے میں دعوی کیا جا رہا ہے کہ ان کے دائیں بازو کی انتہا پسند ملیشیا سے تعلق تھے یا پھر انہوں نے سوشل میڈیا پر ایسے ہی انتہا پسندانہ نظریات کا اظہار کیا تھا۔
چھ جنوری کو ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بول دیا تھا اور پر تشدد واقعات میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔اس تناظر میں حکام کو واشنگٹن میں جو بائیڈن کی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر ممکنہ طور پرتشدد کے واقعات کا خدشہ ہے اور اسی لیے بدھ 20 جنوری کی اس تقریب کے لیے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
واشنگٹن شہر میں اس وقت ایک طرح سے لاک ڈاؤن جیسی صورت حال ہے۔ تحفظ کے مقصد سے مختلف مقامات پر بیریکیڈس لگائے گئے ہیں جبکہ حساس علاقوں میں خار دار تاریں بھی بچھائی گئی ہیں اور شہر کی حفاظت کے لیے پچیس ہزار فوجی جوان تعینات کیے گئے ہیں جو ہمہ وقت گشت کر رہے ہیں۔
بیشتر فوجی عملہ وائٹ ہاؤس اور کیپیٹل ہل کے آس پاس کے ریڈ زون والے علاقے میں تعینات کیا گیا ہے جہاں نو منتخب صدر جو بائیڈن اور کمالہ ہیرس کی حلف برداری کی تقریب ہونی ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے حکام کو اندرونی حملوں یا پھر فساد بھڑک اٹھنے کی صورت میں فوج کی جانب سے فکر لاحق ہے۔ اسی تشویش کے مد نظر ایف بی آئی نے سکیورٹی ڈیوٹی پرتعینات کیے گئے تمام نیشنل گارڈز کا بیک گراؤنڈ چیک کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
واشنگٹن میں نیشنل گارڈ کے سربراہ جنرل ولیم واکر نے امریکی نیوز چینل فاکس نیوز سے بات چیت میں کہا، ''ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ سکیورٹی کے حصار کے لیے درست لوگ موجود ہوں۔''
زبردست احتیاط
پینٹاگون کے ترجمان جوناتھن ہو ف مین کا کہنا تھا کہ ''زبردست احتیاط برتنے'' کی حکمت عملی کے تحت مشتبہ گارڈز کو گھر بھیج دیا گیا ہے، تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تمام بارہ ارکان کا تعلق انتہا پسند گروپ سے بھی نہیں تھا۔
فوج کے سربراہ ڈینیئل ہوکینسین نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ پریشان کن ٹیکسٹ پیغامات دریافت ہونے کے بعد ایک فوجی کو ہٹا دیا گیا تھا جبکہ ایک دوسرے محافظ کو متعلقہ ایجنسی کو رپورٹ کرنے کو کہا گیا۔ اس کے علاوہ دس دیگر ارکان کو سابقہ مجرمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے ہٹایا گیا لیکن ان کا افتتاحی تقریب سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔
اشتہار
حاضر سروس فوجی دہشت گردی کے الزام میں گرفتار
اس دوران منگل 19 جنوری کو جارجیا میں ایک حاضر سروس فوجی کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ حکام کا خیال ہے کہ مذکورہ فوجی امریکی فوجیوں پر گھات لگا کر حملے کے لیے شدت پسند تنظیم داعش کی مدد کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
اس حوالے سے امریکی محکمہ انصاف نے ایک بیان میں کہا کہ پرائیویٹ کول جیمز بریجز پر، ''ایک نامزد غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کو مادی مدد فراہم کرنے کی کوشش کرنے اور امریکی فوجیوں کو قتل کرنے کی سعی کرنے جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔'' اس فوجی کو جمعرات کے روز وفاقی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز، اے پی)
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔