1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا دوبارہ عراقی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہتا

زیمون برول / عدنان اسحاق20 جون 2014

امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ عراق میں سنی شدت پسندوں کے خلاف محدود پیمانے پر عسکری کارروائی کی جا سکتی ہے۔ تاہم ان کے بقول وہ یہ نہیں چاہتے کہ امریکا کسی نئی جنگ کا حصہ بنے۔

تصویر: Reuters

پیئر ہائنس امریکی فوج کا حصہ تھے۔ پانچ سال قبل جب وہ عراق سے واپس آئے تو انہیں امید تھی کہ یہ ملک مستحکم ہو جائے گا۔ تاہم آج کل جب وہ ٹیلی وژن پر عراق کی صورتحال دیکھتے ہیں تو انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی سوچ غلط تھی۔ ’’ یہ بہت ہی پریشان کن ہے۔ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ کس تیزی سے عراق کے حالات دن بہ دن بگڑتے جا رہے ہیں‘‘۔ 28 سالہ ہائنس اپنی فوجی زندگی کو خیر باد کہہ چکے ہیں اور اب وہ واشنگٹن کی ایک یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

وہ عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل میں بھی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ یہ شہر آج کل شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ ان عراق اینڈ شام ’ آئی ایس آئی ایس‘ کے قبضے میں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ موصل کے ہوائی اڈے پر تعینات تھے۔ ان کے بقول اگر وہ فوج میں ہوتے اور انہیں عراق جانے کا حکم دیا جاتا تو وہ فوری طور پر چلے جاتے۔ ’’ لیکن بطور عام شہری میں اس صورتحال پر فکر مند ضرور ہوں کہ نیا امریکی مشن کتنا طویل ہو سکتا ہے‘‘۔

تصویر: dapd

کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار تارشا نامی ایک خاتون نے بھی کیا۔41 سالہ اس خاتون کے شوہر فوج میں ہیں اسی وجہ سے انہوں نے اپنا مکمل نام نہیں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ ایک فوجی کی بیوی ہونے کے ناطے وہ اس بات پر پریشان ہیں کہ کہیں ان کے شوہر کو دوبارہ محاذ پر نہ بھیج دیا جائے۔’’ وہ دو مرتبہ عراق میں لڑ چکے ہیں اور ہر مرتبہ میں ان کے حوالے سے فکر مند رہتی تھی ‘‘۔

تارشا نے مزید بتایا کہ صدر باراک اوباما کے تازہ بیان کے بعد انہیں کافی اطمینان ہوا ہے۔ اوباما نے کہا تھا کہ عراق میں زمینی دستے نہیں بھیجے جائیں گے۔ اسی ہفتے کے آغاز میں اوباما نے عراق میں امریکی سفارت خانے کی حفاظت کے لیے 275 فوجیوں کو بھیجنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ جانتھن کوپلینڈ جیسے عام شہریوں کے لیے یہ صورتحال کافی پیچیدہ ہے۔ ’’ یقیناً آج کل عراق کے حالات انتہائی خراب ہیں لیکن میرے خیال میں اسلحے کے زور پر اس مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا ‘‘۔

ایک امریکی ادارے کی جانب سے دسمبر 2013ء میں ایک جائزہ مرتب کرایا گیا تھا۔ اس کے مطابق 52 فیصد امریکی شہری چاہتے ہیں کہ حکومت ملک کے داخلی مسائل پر توجہ دے۔ جبکہ 38 فیصد کا خیال ہے کہ واشنگٹن حکام کو دیگر ممالک میں جاری تنازعات میں بھی مداخلت کرنی چاہیے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں