امریکا دوحہ امن معاہدے کی خلاف ورز ی کررہا ہے: طالبان
6 اپریل 2020
طالبان نے امریکا پر دوحہ امن معاہدے کے تحت اعتماد سازی کے اقدامات پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہنے کا الزام لگایا ہے۔
اشتہار
فروری کے اواخر میں ہوئے اس امن معاہدے کے تحت ہزاروں عسکریت پسندوں کی رہائی اور فوجی اہداف پر حملوں کو معطل کرنے کے وعدے شامل تھے۔
طالبان نے اتوار کے روزآن لائن جاری اپنے ایک بیان میں کہا، ”ہم امریکیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ معاہدے کی تمام باتوں پر سنجیدگی سے عمل کریں اور اپنے حلیفوں کو بھی معاہدے پر مکمل عمل درآمد کے تئیں آگاہ کردیں۔“
امریکہ نے طالبان کے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
افغانستان میں امریکی افواج (یو ایس فور۔اے) کے ترجمان کرنل سونی لیگیٹ نے طالبان کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں کہا”یو ایس فور۔اے امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہونے والے معاہدے پر قائم ہے اور اسے برقرار رکھے گا۔ اس سے متعلق کوئی دوسری رائے بے بنیاد ہے۔“ کرنل لیگیٹ نے مزید کہا”یوایس فور۔اے کے سامنے معاہدہ بالکل واضح ہے۔ معاہدہ میں یہ بات درج ہے کہ اگر ہمارے پارٹنر(افغان نیشنل سیکورٹی فورس) پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو ہم اس کا دفاع کریں گے۔“
یہ امرقابل ذکر ہے کہ امریکا اور افغانستان کے درمیان 29 فروری کو دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ لیکن یہ معاہدہ افغان حکومت کی غیر موجودگی میں ہوا تھا۔ اس معاہدے کا مقصد افغانستان میں گذشتہ انیس برس سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے متحارب فریقین کے درمیان بات چیت شروع کرنے سے قبل اعتماد سازی کے اقدامات کے تحت پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کا وعدہ شامل ہے۔
اس معاہدے کو کے خاتمے کے لیے ایک سنگ میل قرار دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت پہلے مرحلے میں افغان سرزمین سے امریکا اپنے 13000 فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا اور اگر طالبان افغانستان میں دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں نہ فراہم کرنے کے وعدوں پرعمل کرتے ہیں تو، معاہدے کے مطابق، واشنگٹن 14 ماہ کے دوران اپنے باقی فوجی بھی وطن واپس بلا لے گا۔
حالانکہ مشرق وسطی میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل فرینک میکنزی نے معاہدے پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ طالبان اپنے وعدے پورے کریں گے۔
خیال رہے کہ امریکا پر نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکا نے 2001 میں افغانستان میں اس وقت طالبان حکومت کو معزول کردیا تھا جب اس نے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو واشنگٹن کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی افغانستان میں جنگ کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ اس جنگ کو ختم کرانے کی متعدد کوششیں ہوتی رہیں ہیں تاہم سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس کے باوجود ہر برس ہزاروں شہری اس جنگ میں لقمہ اجل بن رہے ہیں۔
ج ا/ ص ز (لیون سینڈرس)
2019 میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2019 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 81 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے شکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: Reuters/E. Su
1۔ افغانستان
دنیا بھر میں دہشت گردی سے متاثر ممالک میں افغانستان اس برس سر فہرست رہا۔ سن 2018 کے دوران افغانستان میں 1443 دہشت گردانہ واقعات ہوئے جن میں 7379 افراد ہلاک اور ساڑھے چھ ہزار افراد زخمی ہوئے۔ 83 فیصد ہلاکتیں طالبان کے کیے گئے حملوں کے سبب ہوئیں۔ طالبان نے پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا۔ داعش خراسان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.60 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
2۔ عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست رہنے کے بعد دوسرے نمبر پر آیا۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق 2018ء کے دوران عراق میں دہشت گردی کے 1131 واقعات پیش آئے جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 57 فیصد کم ہیں۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں ہلاکتوں میں 75 فیصد کمی دیکھی گئی۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور 9.24 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
3۔ نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 8.59 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 562 دہشت گردانہ حملوں میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 772 زخمی ہوئے۔ سن 2001 سے اب تک نائجیریا میں 22 ہزار سے زائد افراد دہشت گردی کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Stringer
4۔ شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش، حیات تحریر الشام اور کردستان ورکرز پارٹی کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2018 کے دوران دہشت گردی کے 131 واقعات رونما ہوئے جن میں 662 انسان ہلاک جب کہ سات سو سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.0 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
5۔ پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 366 دہشت گردانہ واقعات میں 537 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ گزشتہ برس دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں داعش خراسان اور تحریک طالبان پاکستان نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 81 فیصد کم رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
6۔ صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ چھٹے نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ صومالیہ میں دہشت گردی کے 286 واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں 646 افراد ہلاک ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.8 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
7۔ بھارت
اس برس کے عالمی انڈیکس میں بھارت آٹھویں سے ساتویں نمبر پر آ گیا۔ بھارت میں دہشت گردی کے قریب ساڑھے سات سو واقعات میں 350 افراد ہلاک جب کہ 540 زخمی ہوئے۔ بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2018ء کے دوران کشمیر میں 321 دہشت گردانہ حملوں میں 123 افراد ہلاک ہوئے۔ کشمیر میں دہشت گردانہ حملے حزب المجاہدین، جیش محمد اور لشکر طیبہ نے کیے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
8۔ یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 227 واقعات میں 301 افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی شاخ AQAP کے دہشت گرد ملوث تھے۔ تاہم سن 2015 کے مقابلے میں یمن میں دہشت گردی باعث ہلاکتوں کی تعداد 81 فیصد کم رہی۔
تصویر: Reuters/F. Salman
9۔ فلپائن
فلپائن نویں نمبر پر رہا جہاں سن 2018 کے دوران دہشت گردی کے 424 واقعات پیش آئے جن میں قریب تین سو شہری مارے گئے۔ سن 2001 سے اب تک فلپائن میں تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ رواں برس جی ٹی آئی انڈیکس میں فلپائن کا اسکور 7.14 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Favila
10۔ جمہوریہ کانگو
تازہ انڈیکس میں دسویں نمبر پر جمہوریہ کانگو رہا جہاں الائیڈ ڈیموکریٹک فورسز اور دیگر گروہوں کے دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ ان گروہوں کے حملوں میں زیادہ تر عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔