روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا کہنا ہے کہ روس امریکا کو اپنا دشمن نہیں سمجھتا۔ پوٹن نے امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر جیمز کومی کو روس میں سیاسی پناہ دینے کی پیش کش بھی کی ہے۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یہ بات اپنے سالانہ ٹیلی ویژن شو ’ڈائریکٹ لائن وِد پوٹن‘ کے دوران کہی۔ اس پروگرام میں وہ عام لوگوں کے سوالات کے جواب دیتے ہیں۔
پروگرام میں ایک امریکی شہری کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں پوٹن کا کہنا تھا، ’’ہم امریکا کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکا میں ہمارے بہت سے دوست ہیں۔‘‘
ویڈیو لنک کے ذریعے پروگرام میں شریک اس شخص نے پوٹن سے یہ بھی پوچھا کہ ’رشین فوبیا‘ کا مقابلہ کیسے کیا جائے تو پوٹن نے کہا کہ وہ اس بارے میں کوئی عملی تجویز دینے سے قاصر ہیں تاہم انہیں یقین ہے کہ باہمی تعلقات ایک دوسرے کے احترام کی بنیاد پر ہی مضبوط ہو سکتے ہیں۔
بعد ازاں اس پروگرام میں روسی صدر نے ایف بی آئی کے سابق سربراہ جیمز کومی کو روس میں سیاسی پناہ فراہم کرنے کی پیش کش کی۔ کومی امریکی صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت کی تحقیقات کر رہے تھے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں انہیں قبل از وقت ان کے عہدے سے برخاست کر دیا تھا۔
پوٹن کا کہنا تھا کہ کومی نے ان کی ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی گفت گو کو منظر عام پر لا کر وہی کام کیا ہے جیسا کہ ایڈورڈ سنوڈن نے کیا تھا۔ روس نے سنوڈن کو سیاسی پناہ دے رکھی ہے۔ پوٹن کا کہنا تھا کہ اگر امریکا میں کومی کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تو ’ہم انہیں سیاسی پناہ دینے کے لیے تیار ہیں‘۔
روسی صدر کے اس ٹیلی ویژن پروگرام کا آغاز سن 2001 میں ہوا تھا اور یہ پروگرام پوٹن کے دوستانہ انداز اور ان کے طنز و مزاح کے باعث عوام میں کافی مقبول رہا تھا۔ تاہم اس برس کے پروگرام میں پوٹن نہ صرف کافی سنجیدہ دکھائی دیے بلکہ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ پروگرام باقاعدہ ’اسکرپٹ‘ کے تحت تیار کیا گیا ہے۔ پروگرام کے اناؤنسر نے دعویٰ کیا کہ اس برس کے پروگرام کے لیے بھی انہیں دس لاکھ سے زائد سوالات موصول ہوئے تھے۔
روسی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ یوکرائن کے تنازعے کے بعد امریکی اور یورپی پابندیوں کے باوجود روسی معیشت ترقی کی جانب گامزن ہے۔ انہوں نے امریکا کی جانب سے مزید پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی کے حوالے سے کہا کہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امریکا اپنے سیاسی بحران کا الزام کسی باہر کے ملک پر عائد کرنا چاہتا ہے۔
امریکی جریدے ’فوربز‘ نے اپنی سالانہ درجہ بندی میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو دنیا کی طاقتور ترین شخصیت قرار دیا ہے۔ اس فہرست میں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے نمبر پر ہیں۔ دیکھتے ہیں، پوٹن کی شخصیت کے مختلف پہلو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کے جی بی سے کریملن تک
پوٹن 1975ء میں سابق سوویت یونین کی خفیہ سروس کے جی بی میں شامل ہوئے۔ 1980ء کے عشرے میں اُن کی پہلی غیر ملکی تعیناتی کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں ہوئی۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے بعد پوٹن روس لوٹ گئے اور صدر بورس یلسن کی حکومت کا حصہ بنے۔ یلسن نے جب اُنہیں اپنا جانشین بنانے کا اعلان کیا تو اُن کے لیے ملکی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Klimentyev
پہلا دورِ صدارت
یلسن کی حکومت میں پوٹن کی تقرری کے وقت زیادہ تر روسی شہری اُن سے ناواقف تھے۔ یہ صورتِ حال اگست 1999ء میں تبدیل ہو گئی جب چیچنیہ کے مسلح افراد نے ہمسایہ روسی علاقے داغستان پر حملہ کیا۔ صدر یلسن نے کے جی بی کے سابق افسر پوٹن کو بھیجا تاکہ وہ چیچنیہ کو پھر سے مرکزی حکومت کے مکمل کنٹرول میں لائیں۔ سالِ نو کے موقع پر یلسن نے غیر متوقع طور پر استعفیٰ دے دیا اور پوٹن کو قائم مقام صدر بنا دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images
میڈیا میں نمایاں کوریج
سوچی میں آئس ہاکی کے ایک نمائشی میچ میں پوٹن کی ٹیم کو چھ کے مقابلے میں اٹھارہ گول سے فتح حاصل ہوئی۔ ان میں سے اکٹھے آٹھ گول صدر پوٹن نے کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Nikolsky
اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں
اپوزیشن کی ایک احتجاجی ریلی کے دوران ایک شخص نے منہ پر ٹیپ چسپاں کر رکھی ہے، جس پر ’پوٹن‘ لکھا ہے۔ 2013ء میں ماسکو حکومت نے سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے نوووستی کے ڈھانچے کی تشکیلِ نو کا اعلان کرتے ہوئے اُس کا کنٹرول ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دیا، جسے مغربی دنیا کا سخت ناقد سمجھا جاتا تھا۔ ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے پریس فریڈم کے اعتبار سے 178 ملکوں کی فہرست میں روس کو 148 ویں نمبر پر رکھا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/V.Maximov
پوٹن کی ساکھ، اے مَین آف ایکشن
روس میں پوٹن کی مقبولیت میں اس بات کو ہمیشہ عمل دخل رہا ہے کہ وہ کے جی بی کے ایک سابق جاسوس اور عملی طور پر سرگرم شخص ہیں۔ اُن کی شخصیت کے اس پہلو کو ایسی تصاویر کے ذریعے نمایاں کیا جاتا ہے، جن میں اُنہیں برہنہ چھاتی کے ساتھ یا کسی گھوڑے کی پُشت پر یا پھر جُوڈو کھیلتے دکھایا جاتا ہے۔ روس میں استحکام لانے پر پوٹن کی تعریف کی جاتی ہے لیکن آمرانہ طرزِ حکمرانی پر اُنہیں ہدفِ تنقید بھی بنایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Nikoskyi
دم گھونٹ دینے والی جمہوریت
2007ء کے پارلیمانی انتخابات میں صدر پوٹن کی جماعت ’یونائیٹڈ رَشیا‘ نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ناقدین نے کہا تھا کہ یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی جمہوری۔ صدر پوٹن پر دم گھونٹ دینے والی جمہوریت کا الزام لگانے والوں نے جلوس نکالے تو پولیس نے اُن جلوسوں کو منتشر کر دیا اور درجنوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ اس جلوس میں ایک پوسٹر پر لکھا ہے:’’شکریہ، نہیں۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/Y.Kadobnov
پوٹن بطور ایک مہم جُو
سیواستوپول (کریمیا) میں پوٹن بحیرہٴ اسود کے پانیوں میں ایک ریسرچ آبدوز کی کھڑکی میں سے جھانک رہے ہیں۔ اِس مِنی آبدوز میں غوطہ خوری اُن کا محض ایک کرتب تھا۔ انہیں جنگلی شیروں کے ساتھ گھومتے پھرتے یا پھر بقا کے خطرے سے دوچار بگلوں کے ساتھ اُڑتے بھی دکھایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ عوام میں اُن کی بطور ایک ایسے مہم جُو ساکھ کو پختہ کر دیا جائے، جسے جبراً ساتھ ملائے ہوئے علاقے کریمیا پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔