ریپبلکن امیدوار ورجینیا کے گورنر منتخب، بائیڈن کو بڑا دھچکا
3 نومبر 2021
ریپبلکن امیدوار کی جیت امریکی صدر جو بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ سن 2009 کے بعد سے ریاست ورجینیا میں پہلی مرتبہ ریپبلکن پارٹی کا کوئی امیدوارگورنر کے عہدے کے لیے منتخب ہوا ہے۔
اشتہار
امریکی میڈیا کے مطابق ریاست ورجینیا میں دو نومبر منگل کے روز گورنر کے عہدے کے لیے ہونے والے انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے امیدوار گلین ینگکن کی جیت اب تقریباً یقینی ہے۔ 54 سالہ گلین سیاست میں قدرے نئے ہیں تاہم انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے اپنے حریف ٹیری میک لائف کو شکست دے دی ہے، جو 2014 سے 2018 تک ریاست کے گورنر رہ چکے ہیں۔
ووٹوں کی گنتی شروع ہونے سے ہی یہ مقابلہ کافی سخت رہا اور دونوں امیدوار کے درمیان کانٹے کا ٹکر دیکھنے کو ملا۔مقامی میڈیا کے مطابق جب تقریباً 95 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہوئی، تو اس وقت ریپبلکن امیدوار کو اپنے حریف پر لگ بھگ پونے تین فیصد کی برتری حاصل ہوگئی، جس کا مطلب ان کی جیت یقینی ہے۔
کانگریس پر ڈیموکریٹک پارٹی کا کنٹرول پہلے سے ہی کافی محدود ہے اور اس انتخابی نتیجے سے صدر جو بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی پر، آئندہ برس ہونے والے وسط مدتی انتخابات کے حوالے سے، کافی سخت دباؤ پڑسکتا ہے۔
نتائج کی خبر آنے کے بعد اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ریپبلکن رہنما گلین ینگکن نے کہا، ''ہم سب مل کر اس دولت مشترکہ کی رفتار کو بدلیں گے۔''
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ینگکن کی جیت کے پیچھے جہاں مضافاتی ریپبلکنز کو متحرک کرنا ایک اہم امر تھا، وہیں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ان انتخابات سے کافی دور رکھا گیا کیونکہ ریاست ورجینیا میں وہ کافی غیر مقبول ہیں۔
انہوں نے سرکاری اسکولوں میں بائیں بازو کے خیالات کی طرف رجحان سے متعلق قدامت پسندو ں کے خدشات کا جہاں فائدہ اٹھایا وہیں اعتدال پسند رائے دہندگان کو بھی اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب رہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اسکول کی حالت فوری طور پر درست کرنے کی کوشش کریں گے۔ ''ہمارے بچے انتظار کے متحمل نہیں ہو سکتے، ہم حکومت نہیں بلکہ لوگوں کے وقت کے ساتھ کام کریں گے۔''
نیویارک اور بوسٹن میں بھی نئے میئر
منگل کے روز ہی امریکا کے دو سب سے بڑے شہروں میں میئر کے انتخابات کے لیے بھی ووٹ ڈالے گئے۔ نیویارک میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار سابق محکمہ پولیس کے افسر ایرک ایڈمز نے اپنے ریبپلکن حریف کرٹس سلوا پر آسانی سے کامیابی حاصل کر لی۔ ایرک امریکی تاریخ میں نیویارک سٹی کے دوسرے سیاہ فام میئر ہوں گے۔
اشتہار
ایڈمز نے مین ہٹن اور بروکلین کے ترقی پسند اور اعتدال پسند ڈیموکریٹک ووٹروں تک رسائی حاصل کی اور اپنے مد مخالف امیدوار کے خلاف تو تو میں میں اور ذاتی حملوں کے بجائے، ایک اچھی انتخابی مہم پیش کی تھی۔
ادھر بوسٹن میں ایک نئی تاریخ رقم کی گئی، جہاں کونسلر مشیل وؤ شہر کی پہلی خاتون میئر منتخب ہوگئیں۔ مشیل وؤ ایشیائی نژاد امریکی ہیں جو پہلی بار اس عہدے پر فائز ہوئی ہیں۔ اپنی کامیابی کے بعد محترمہ وؤ نے کہا، ''ہم تیار ہیں کہ بوسٹن اب سب کے لیے ہوگا۔''
ریاست میساچوسیٹس بہت ہی آزاد اور اعتدال پسند ریاست سمجھی جاتی ہے تاہم اس کا شہر بوسٹن امریکا بھر میں بدترین عدم مساوات اور اسکولوں میں اپنے امتیازی سلوک کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔