خلیج فارس میں پائی جانے والی کشیدگی کے تناظر میں امریکا سعودی سرزمین پر پیٹریاٹ میزائل اور جدید راڈار نظام نصب کرے گا۔ اس امریکی فیصلے سے خلیجی علاقے میں امریکی فوجی قوت میں مزید اضافہ ہو گا۔
اشتہار
امریکی محکمہٴ دفاع پینٹاگون کے مطابق سعودی عرب میں مجموعی دفاعی صلاحیت کو مزید مضبوط کرنے کے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت جدید امریکی دفاعی میزائل نظام پیٹریاٹ کے ساتھ ساتھ زمین پر انتہائی جدید راڈار نظام سینٹینل کوبھی نصب کیا جائے گا۔
امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کے مطابق اس تنصیبات سے سعودی عرب کے فضائی اور میزائل نظام کو تقویت حاصل ہو گی۔ ایسپر کے مطابق یہ تنصیبات سعودی عرب کے فوجی اور شہری دفاعی ڈھانچے کے لیے بہت ضروری ہو گئی ہیں۔ ایسپر کے بقول اس فیصلے سے خطے میں امریکی موجودگی کو بھی قوت حاصل ہو گی۔
دفاعی میزائل نظام پیٹریاٹ کے ہمراہ دو سوامریکی فوجی بھی تعینات کیے جائیں گے۔ پینٹاگون کے مطابق سعودی عرب نے پہلے ہی دو پیٹریاٹ میزائل اور ایک ٹرمینل ہائی آلٹیٹیوڈ ڈیفنس سسٹم (THAAD) کی خریداری کے سودے کر رکھے ہیں۔ ان سودوں کی فراہمی ابھی باقی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ امریکا کے ہزاروں فوجی خلیج کے علاقے میں مختلف مقامات پر متعین ہیں۔ جن ملکوں میں یہ امریکی فوجی موجود ہیں، ان میں سعودی عرب، بحرین اور قطر شامل ہیں۔ دوسری جانب خلیج میں امریکی قیادت میں جاری عسکری سرگرمیوں میں جرمنی، فرانس اور برطانیہ بھی شامل ہو چکے ہیں۔
امریکی عسکری سرگرمیوں میں تیزی چودہ ستمبر سے پیدا ہے جب سعودی عرب کی تیل کی بڑی تنصیبات پر مبینہ ایرانی حملہ کیا گیا تھا۔ ایران اس الزام کی تردید کرتا ہے۔ ان حملوں سے سعودی تیل کی پیداوار میں واضح خلل پیدا ہوا اور اس کا اثر عالمی سطح پر محسوس کیا گیا۔ سعودی حکومت ایسی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے کہ تیل کی سپلائی کو اسی ماہ کے اختتام تک بحال کر دیا جائے۔
چیز ونٹر (عابد حسین)
بھارت کو روسی دفاعی میزائل نظام کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکی پابندیوں کی فکر کیے بغیر بھارت روس سے 5.2 ارب ڈالر مالیت کا ایس چار سو ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم خرید رہا ہے۔ آخر بھارت ہر قیمت پر یہ میزائل سسٹم کیوں خریدنا چاہتا ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
تعلقات میں مضبوطی
دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد نریندری مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور ماسکو کے مابین تعلقات ’مضبوط سے مضبوط تر‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ رواں برس دونوں رہنماؤں کے مابین یہ تیسری ملاقات تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Kadobnov
ایس چار سو دفاعی نظام کیا ہے؟
زمین سے فضا میں مار کرنے والے روسی ساختہ S-400 نظام بلیسٹک میزائلوں کے خلاف شیلڈ کا کام دیتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسے دنیا کا زمین سے فضا میں مار کرنے والا لانگ رینج دفاعی نظام بھی تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
بھارت کی دلچسپی
بھارت یہ دفاعی میزائل چین اور اپنے روایتی حریف پاکستان کے خلاف خرید رہا ہے۔ یہ جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم انتہائی وسیع رینج تک لڑاکا جنگی طیاروں، حتیٰ کہ اسٹیلتھ بمبار ہوائی جہازوں کو بھی نشانہ بنانے اور انہیں مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
کئی مزید معاہدے
بھارت روس سے کریواک فور طرز کی بحری جنگی کشتیاں بھی خریدنا چاہتا ہے۔ اس طرح کا پہلا بحری جنگی جہاز روس سے تیار شدہ حالت میں خریدا جائے گا جب کہ باقی دونوں گوا کی جہاز گاہ میں تیار کیے جائیں گے۔ بھارت کے پاس پہلے بھی اسی طرح کے چھ بحری جہاز موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
امریکی دھمکی
امریکا نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ممالک بھی روس کے ساتھ دفاع اور انٹیلیجنس کے شعبوں میں تجارت کریں گے، وہ امریکی قانون کے تحت پابندیوں کے زد میں آ سکتے ہیں۔ روس مخالف کاٹسا (CAATSA) نامی اس امریکی قانون پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں دستخط کیے تھے۔ یہ قانون امریکی انتخابات اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کی وجہ سے صدر پوٹن کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
بھارت کے لیے مشکل
سابق سوویت یونین کے دور میں بھارت کا اسّی فیصد اسلحہ روس کا فراہم کردہ ہوتا تھا لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے نئی دہلی حکومت اب مختلف ممالک سے ہتھیار خرید رہی ہے۔ امریکا کا شمار بھی بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران بھارت امریکا سے تقریباﹰ پندرہ ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بھارت کے لیے کوئی امریکی رعایت نہیں
گزشتہ ماہ امریکا نے چین پر بھی اس وقت پابندیاں عائد کر دی تھیں، جب بیجنگ حکومت نے روس سے جنگی طیارے اور ایس چار سو طرز کے دفاعی میزائل خریدے تھے۔ امریکی انتظامیہ فی الحال بھارت کو بھی اس حوالے سے کوئی رعایت دینے پر تیار نظر نہیں آتی۔ تاہم نئی دہلی کو امید ہے کہ امریکا دنیا میں اسلحے کے بڑے خریداروں میں سے ایک کے طور پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔