امریکی ایوان نمائندگان نے چین کے سنکیانگ خطے سے درآمدات پر پابندی عائد کردی ہے، یہ قدم ایغوروں سے مبینہ منظم جبری مزدوری کو روکنے کی کوشش کے تحت اٹھایا گیا ہے۔
اشتہار
تاجر برادری کی طرف سے مخالفت کے باوجود امریکی پارلیمان کے ایوان نمائندگان نے منگل کے روز تقریباً مکمل اتفاق رائے سے چین کے سنکیانگ خطے سے درآمدات پا بندی عائد کرنے کے قانون کو منظوری دے دی۔ سنکیانگ کے کیمپوں میں دس لاکھ سے زیادہ ایغور مسلمانوں سے مبینہ طور پر جبری مزدوری کرائی جارہی ہے۔
گوکہ ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام کی تاجروں کی متعدد انجمنوں نے مخالفت کی تاہم اس کے باوجود 'ایغور جبری مزدوری روک تھام قانون‘ کو تین ووٹوں کے مقابلے میں 406 ووٹوں کی زبردست اکثریت سے تقریبا ً اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔ البتہ اس بل کو قانونی طور پر نافذ ہونے سے قبل اسے سینیٹ سے منظور کرانا ضروری ہوگا۔
استحصال بند ہونا چاہیے
اقوام متحدہ کے مطابق دس لاکھ سے زیادہ ایغور اور دیگر اکثریتی مسلمان مزدورو ں کو سنکیانگ میں قید کی حالت میں رکھ کر ان سے جبری کام کرایا جارہا ہے۔ امریکا اور دیگر ملکوں نے ان جبری مزدوری کیمپوں کو بند کرنے کے لیے چین پر اپنا دباو بڑھا دیا ہے۔
ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے کہا”افسوس کی بات ہے کہ جبری مزدوری سے تیار کرائے گئے مصنوعات امریکی دکانوں اور گھروں تک پہنچ رہے ہیں۔ ہمیں چین کو ایک واضح پیغام دیناچاہیے کہ اب یہ استحصال بند ہوجانا چاہیے۔"
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
9 تصاویر1 | 9
ایک سروے کے مطابق امریکا میں چین سے آنے والے کپڑوں میں سے 20 فیصد سے زیادہ ایسے ہوتے ہیں جن کے دھاگے سنکیانگ خطے میں تیار کیے جاتے ہیں۔
تاجروں کی مخالفت
امریکی چیمبرز آف کامرس نے ایوان نمائندگان کے اس اقدام کی نکتہ چینی کی ہے۔ اس نے کہا کہ اس قدم سے جبری مزدوری کے ذریعہ تیار کردہ مصنوعات کی درآمدات روکنے کے بجائے قانونی طریقے سے ہونے والی تجارت میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔
امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ سنکیانگ میں امریکی کمپنیوں کو اس سلسلے میں بیدار کرے گی جبکہ امریکی کسٹم اور بارڈر پروٹیکشن ایجنسی نے کہا کہ وہ سنکیانگ خطے کے جبری مزدوری کیمپوں میں تیار مصنوعات کا پتہ لگا کر انہیں امریکا میں داخل ہونے سے روکے گی۔
اس قانون کو منظور کرانے میں اہم رول ادا کرنے والے ڈیموکریٹ رکن جم میک گوورن نے کہا کہ جبری مزدوری اور استحصال کے خلاف یہ اقدام نا کافی ہے۔
خیال رہے کہ کوئی ایک ہفتہ قبل امریکا نے اقلیتی ایغور مسلمانو ں سے جبری مزدوری کرانے کا الزام لگاتے ہوئے سنکیانگ میں واقع چار کمپنیوں کی مصنوعات کی درآمدات روک دی تھیں۔
چین کی تردید
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں دس لاکھ سے زیادہ ایغور مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ تاہم چین اس کی تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان کیمپوں میں شدت پسند نظریات کے حامل افراد کو اصلاح کے لیے رکھا گیا ہے۔ چین کا دعوی ہے کہ وہ ووکیشنل ٹریننگ پروگرام کے تحت ان لوگوں کو کارخانوں میں بھیجتا ہے تاکہ وہ کام کے سلسلے میں عملی تربیت حاصل کرسکیں۔
ج ا / ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)
چین: ایغور مسلمان بچوں کی شرح پیدائش کم کرنے کی جبری کوشش