امریکا میں ایک سیاہ فام مجرم کو مہلک انجیکشن دے کر موت کی سزا دے دی گئی۔ جولائی میں وفاقی سزائے موت بحال کیے جانے کے بعد سے یہ کسی سیاہ فام کی پہلی اور مجموعی طور پر ساتویں سزائے موت ہے۔
اشتہار
ٹرمپ انتظامیہ نے 17 برس بعد گزشتہ جولائی میں وفاقی سطح پرسزائے موت بحال کردی تھی۔ سزائے موت کی بحالی کے بعد کرسٹوفر ویالوا کی سزائے موت پر عمل درآمد امریکی حکومت کی طرف سے کسی سیاہ فام شخص کی پہلی سزائے موت ہے۔ انہیں دو عشرے قبل ایک نوجوان مسیحی جوڑے کے قتل کا قصوروار قرار دیا گیا تھا۔ وکلاء نے تاہم اس فیصلے پر نسلی جانبداری کا الزام لگا یا ہے۔
40سالہ ویالوا کو جمعرات کے روز مقامی وقت کے مطابق صبح 6 بجکر 42 منٹ پر انڈیانا کے ٹیرے ہوٹے وفاقی جیل میں مہلک انجیکشن دے کر موت کی نیند سلادیا گیا۔
سیاہ فام کرسٹوفر ویالوا کی سزائے موت کا واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب امریکا جرائم کے متعلق اپنے نظام انصاف میں پائی جانے والی نسلی بھید بھاو کے مسئلے سے دوچار ہے۔ بڑی تعداد میں عوام پولیس کی زیادتیوں اور نسل پرستی کے خلاف بطور احتجاج سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ جن 56 افراد کو اب تک وفاقی سطح پر موت کی سزا دی گئی ہے ان میں 24 یا تقریباً نصف سیاہ فام تھے۔
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M:.Schreiber
7 تصاویر1 | 7
خیال رہے کہ امریکا میں سیاہ فاموں کی آبادی کا تناسب 13 فیصد ہے۔
’سنگین غلطی‘
ویالوا کے خلاف قتل کے مقدمے کا آغاز2000 میں ہوا تھا۔ گیارہ سفید فام اور ایک سیاہ فام جج پر مشتمل بنچ نے اسے اور اس کے ایک ساتھی کو کار چرانے اور قتل کا قصوروار پایا۔ بنچ نے دونوں کو سزائے موت سنائی تھی۔
ویالوا کے ساتھی کی سزائے موت پر فی الحال عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔
استغاثہ کا کہنا تھا کہ ویالوا، جس کی عمر اس وقت 19برس تھی، ایک جرائم پیشہ گروہ سے وابستہ تھا۔ اس نے ٹکسس کے کلین میں ایک کار چرائی، اسٹیسی اور ٹاڈ بیگلی کو گولی مار دی اور کار کو آگ لگادی۔ کار میں موجود بیگلی آخری وقت تک اپنی جان بچانے کے لیے منت سماجت کرتی رہی۔
ویالوا کے وکلاء کی طرف سے جمعرات کے روز جاری ایک ویڈیو ریکارڈنگ میں ویالوا نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے اس جوڑے کو قتل کر کے ”سنگین غلطی" کی تھی جو اتوار کے روز چرچ سے عبادت کرکے اپنے گھر واپس لوٹ رہا تھا۔
سب سے زیادہ سزائے موت کن ممالک میں؟
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2017 کے دوران عالمی سطح پر قریب ایک ہزار افراد کو سنائی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔ سزائے موت کے فیصلوں اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے کون سے ملک سرفہرست رہے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۱۔ چین
چین میں سزائے موت سے متعلق اعداد و شمار ریاستی سطح پر راز میں رکھے جاتے ہیں۔ تاہم ایمنسٹی کے مطابق سن 2017 میں بھی چین میں ہزاروں افراد کی موت کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
۲۔ ایران
ایران میں ہر برس سینکڑوں افراد کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے، جن میں سے زیادہ تر افراد قتل یا منشیات فروشی کے مجرم ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس ایران میں پانچ سو سے زائد افراد سزائے موت کے بعد جان سے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل تاہم یہ نہیں جان پائی کہ اس برس کتنے ایرانیوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/epa/S. Lecocq
۳۔ سعودی عرب
ایران کے حریف ملک سعودی عرب اس حوالے سے تیسرے نمبر پر رہا۔ سن 2017 کے دوران سعودی عرب نے 146 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا۔
تصویر: Nureldine/AFP/Getty Images
۴۔ عراق
چوتھے نمبر پر مشرق وسطیٰ ہی کا ملک عراق رہا جہاں گزشتہ برس سوا سو سے زائد افراد کو موت کی سزا دے دی گئی۔ عراق میں ایسے زیادہ تر افراد کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت موت کی سزا دی گئی تھی۔ ان کے علاوہ 65 افراد کو عدالتوں نے موت کی سزا بھی سنائی، جن پر سال کے اختتام تک عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
۵۔ پاکستان
پاکستان نے گزشتہ برس ساٹھ سے زائد افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہے۔ سن 2017 میں پاکستانی عدالتوں نے دو سو سے زائد افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ سات ہزار سے زائد افراد کے خلاف ایسے مقدمات عدالتوں میں چل رہے تھے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۶۔ مصر
مصر میں اس عرصے میں پینتیس سے زیادہ افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: Reuters
۷ صومالیہ
ایمنسٹی کے مطابق صومالیہ میں گزشتہ برس عدالتوں کی جانب سے سنائے گئے سزائے موت کے فیصلوں میں تو کمی آئی لیکن اس کے ساتھ سزائے موت پر عمل درآمد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 24 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/epa/J. Jalali
۸۔ امریکا
آٹھویں نمبر پر امریکا رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ ریاستوں میں 23 افراد کو سزائے موت دے دی گئی، جب کہ پندرہ ریاستوں میں عدالتوں نے 41 افراد کو سزائے موت دینے کے فیصلے سنائے۔ امریکا میں اس دوران سزائے موت کے زیر سماعت مقدموں کی تعداد ستائیس سو سے زائد رہی۔
تصویر: imago/blickwinkel
۹۔ اردن
مشرق وسطیٰ ہی کے ایک اور ملک اردن نے بھی گزشتہ برس پندرہ افراد کی سزائے موت کے فیصلوں پر عمل درآمد کر دیا۔ اس دوران مزید دس افراد کو موت کی سزا سنائی گئی جب کہ دس سے زائد افراد کو ایسے مقدموں کا سامنا رہا، جن میں ممکنہ طور پر سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
تصویر: vkara - Fotolia.com
۱۰۔ سنگاپور
دسویں نمبر پر سنگاپور رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ افراد موت کی سزا کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سن 2017 میں سنگاپور کی عدالتوں نے پندرہ افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ اس دوران ایسے چالیس سے زائد مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Tsuno
10 تصاویر1 | 10
وکیل دفاع سوزان اوٹو کا کہنا تھا کہ ویالوا نے جن لوگوں کو اپنا شکار بنایا وہ بہت اچھے لوگ تھے۔ انہوں نے تاہم کہا کہ ویالوا جرائم پیشہ گروہ کا کل وقتی رکن نہیں تھا اور عدالت اس بیانیہ سے متاثر ہوگئی کہ وہ ایک خطرناک سیاہ فام ٹھگ تھا۔ اوٹو کا کہنا تھا”اس کیس میں نسل ایک بہت مضبوط عنصر ثابت ہوا۔"
اشتہار
جانبدارانہ رویہ
واشنگٹن میں واقع سزائے موت کے انفارمیشن سینٹر (ڈی پی آئی سی) نے اس ماہ کے اوائل میں اپنی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا تھا کہ امریکی سزائے موت کے نظام میں نسلی جانبداری موجود ہے۔ انفارمیشن سینٹر کی اطلاعات کے مطابق ملک میں سیاہ فام افراد کی آبادی صرف ساڑھے 13 فیصد ہے لیکن موت کی سزا پانے والوں میں ان کی شرح 34 فیصد ہے جبکہ ابھی جو سزائے موت پر عمل درآمد کے منتظر ہیں ان کی تعداد 42 فیصد ہے۔
ڈی پی آئی سی کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے تحت وفاقی محکمہ انصاف نے 1963 کے بعد سے اب تک ان کے پیش رووں کی انتظامیہ کے مقابلے میں تقریباً دو گنا لوگوں کو موت کی سزا دی ہے۔
ج ا/ص ز (روئٹرز، اے پی)
پولیس تشدد کے خلاف غم وغصہ اب پوری دنیا میں پھیلتا ہوا