امریکا سے بات چیت جاری رکھیں گے، طالبان
14 اکتوبر 2018افغانستان میں پیدا ہونے والے امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد نے جمعہ 12 اکتوبر کو قطر میں طالبان کے رہنماؤں سے ملاقات کی تھی جس کا مقصد افغانستان میں گزشتہ 17 برس سے جاری جنگ کے خاتمے کی راہ تلاش کرنا تھا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’فریقین نے افغان مسئلے کے پر امن حل اور تسلط کے خاتمے کے لیے بات چیت کی۔۔۔ دونوں اطراف نے مستقبل میں بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق زلمے خلیل زاد ہفتہ 13 اکتوبر کو کابل پہنچے اور افغان صدر اشرف غنی کو اپنے دورے کے حوالے سے آگاہ کیا۔ زلمے خلیل زاد اپنے 10 روزہ دورے کے دوران چار ممالک میں گئے اور افغان مسئلے کے پر امن حل کے سلسلے میں وہاں رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔
طالبان ذرائع کے مطابق دونوں فریق اس ملاقات کے لیے سخت شرائط کے ساتھ بات چیت کے لیے اکھٹے ہوئے۔ ایک سینیئر طالبان رہنما شیر محمد عباس ستانکزئی نے روئٹرز کو بتایا، ’’یہ ایک تعارفی ملاقات تھی جس میں آٹھ رکنی امریکی وفد نے ہمارے سیاسی دفتر کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی۔‘‘ ستانکزئی طالبان کے قطر میں قائم دفتر کے سربراہ ہیں اور انہوں نے ہی امریکی وفد کے ساتھ ہونے والی اس بات چیت میں طالبان کے وفد کی سربراہی کی۔
ایک اور سینیئر طالبان رہنما کے مطابق خلیل زاد نے قطری دارالحکومت دوحہ میں موجود طالبان رہنماؤں سے کہا کہ وہ افغانستان میں چھ ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کریں جس کا آغاز 20 اکتوبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل ہونا چاہیے۔ اس طالبان رہنما نے اپنا نامی مخفی رکھنے کی شرط پر روئٹرز کو مزید بتایا، ’’دونوں اطراف نے امن کے امکانات اور افغانستان میں امریکی موجودگی پر بات چیت کی۔‘‘
امریکی مطالبے کے جواب میں طالبان چاہتے ہیں کہ افغان حکومت ان جنگجوؤں کو رہا کرے جو ملک بھر کی جیلوں میں قید ہیں اور ساتھ ہی افغان فورسز کے ساتھ مل کر لڑنے والے غیر ملکی فورسز کی افغانستان سے جلد واپسی کی جائے۔ طالبان کے ایک ذریعے کے مطابق امریکی وفد نے قیدیوں کی رہائی کے لیے مختلف کمیٹیاں تشکیل دینے کی تجویز دی ہے۔ اس ذریعے کے مطابق، ’’کسی بھی فریق نے دوسرے فریق کے مطالبات کو فوری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے تاہم دنوں نے اس بات پر ضرور اتفاق کیا کہ دوبارہ ملاقات کی جائے اور اس تنازعے کا حل تلاش کیا جائے۔‘‘
ا ب ا / ع ح ( روئٹرز)