ایرانی صدر حسن روحانی نے امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہےکہ وہ شیرکی دم سے کھیلے کی کوشش نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ جنگ ’تمام جنگوں کی ماں‘ ثابت ہو سکتی ہے۔
اشتہار
ایرانی سرکاری خبر رساں ادارے اِسنا پر جاری ہونے والے اس بیان میں ایرانی صدر روحانی نے کہا کہ ایران کے ساتھ امن امریکا کے لیے نہایت ضروری ہے۔
روحانی کا یہ بیان ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے اس بیان سے صرف ایک روز بعد آیا ہے، جس میں انہوں نے صدر روحانی کی اس تجویز کی حمایت کی تھی کہ اگر ایرانی برآمدات کو روکنے کی کوشش کی گئی، تو ایران خلیجی ممالک سے تیل کی ترسیل کو روک سکتا ہے۔
صدر روحانی نے ایرانی سفارت کاروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ٹرمپ صاحب، شیر کی دم سے مت کھیلیے، کیوں کہ اس سے آپ کو بعد میں پچھتاوا ہو سکتا ہے۔‘‘
روحانی نے خبردار کیا کہ امریکا کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایران کے ساتھ جنگ ’تمام جنگوں کی ماں‘ ہو گی۔
یہ بات اہم ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان تعلقات رواں برس مئی میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری ڈیل سے باہر نکل جانے کے اعلان کے بعد سے شدید کشیدگی کا شکار ہیں۔ گزشتہ روز ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات ایک فاش غلطی ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت کو کوشش کرنا چاہیے کہ وہ دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنائے، تاہم اس فہرست میں امریکا کو شامل نہیں کرنا چاہیے۔
حزب اللہ، ایرانی پشت پناہی رکھنے والی لبنانی تنظیم
لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری گروپ ملک میں نہایت طاقتور تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم اس کی طاقت، لبنان سمیت اس خطے میں تناؤ کا باعث ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Taher
حزب اللہ کا قیام
حزب اللہ یا ’ خدا کی جماعت‘ کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی جانب سے جنوبی لبنان پر اسرائیل کے 1982ء میں کیے جانے والے حملے کے ردعمل میں ڈالی گئی تھی۔ اس جماعت کے دو گروپ ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا عسکری۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسرائیل کے خلاف قومی حمایت
1980ء کی دہائی میں حزب اللہ بطور شیعہ ملیشیا کے ابھر کر سامنے آئی جس نے لبنان کی خانہ جنگی میں بڑا کردار ادا کیا۔ سن 2000ء میں اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان چھوڑنے کے پیچھے حزب اللہ کی ہی گوریلا کارروائیاں تھیں۔ پھر اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین 2006ء میں جنگ ہوئی اور اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کا دفاع کرنے کے سبب حزب اللہ کے لیے مذہب ومسلک سے مبراء ہو کر ملکی حمایت میں اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Zaatari
ایران کی پشت پناہی
اپنے معرض وجود میں آنے کے بعد حزب اللہ کو ایران اور شام سے عسکری، معاشی اور سیاسی حمایت حاصل رہی ہے۔ اس وقت اس جماعت کا عسکری ونگ، ملکی ا فوج سے زیادہ طاقتور اور خطے میں میں اثر ورسوخ کا حامل ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
سیاسی آلہ کار
لبنان میں 1975ء سے 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اختتام پر اس جماعت نے اپنی توجہ سیاست کی جانب مبذول کر لی۔ حزب اللہ لبنان کی اکثریتی شیعہ آبادی کی نمائندگی کے علاوہ ملک میں موجود دیگر فرقوں مثلاﹰ مسیحیوں کی اتحادی بھی ہے۔ حزب اللہ میں یہ سیاسی تبدیلی تنظیم کے موجودہ سربراہ حسن نصر اللہ کی سربراہی میں ہوئی جنہوں نے 1992ء سے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عسکری بازو
خانہ جنگی کے بعد لبنان کی دیگر جماعتوں کے بر عکس حزب اللہ نے اپنی جماعت کے عسکری بازو کو تحلیل نہیں کیا۔ اس پر ملک کی چند سیاسی جماعتوں نے اعتراض بھی کیا تاہم حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ عسکری بازو کی موجودگی اسرائیل اور دیگر بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
دہشت گرد گروپ؟
چند ممالک مثلاﹰ امریکا، اسرائیل، کینیڈا اور عرب لیگ کی جانب سے اس جماعت کو دہشت گرد تنظیم گردانا جاتا ہے۔ تاہم برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی یونین اس کی قانونی سیاسی سرگرمیوں اور عسکری بازو کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/I. Press
شامی خانہ جنگی میں موجودگی
حزب اللہ شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہے۔ حزب اللہ کی شامی خانہ جنگی میں شمولیت نے نہ صرف صدر بشار الاسد کو محفوظ کیا بلکہ شامی افواج کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل کے راستے محفوظ کیے اور لبنان کے ارد گرد ایسا محفوظ علاقہ تشکیل دیا ہے جو ان سنی عسکری جماعتوں کو شام سے دور رکھنے کا سبب ہے، جن سے شام کو خطرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Syrian Central Military Media
فرقہ بندی
لبنان ایک طویل عرصے سے خطے میں خصوصی طور پر ایران اور سعودی عرب کے مابین طاقت کی جنگ میں مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ تاہم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری غلبے اور شام کی جنگ میں شمولیت کے باعث لبنان سمیت خطے میں فرقوں کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
تصویر: dapd
8 تصاویر1 | 8
گزشتہ ہفتے ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے بھی کہا تھا کہ جوہری ڈیل کے تناظر میں امریکا کو جواب طلبی کے لیے تہران حکومت نے بین الاقوامی عدالت برائے انصاف سے رجوع کیا ہےہ