ملا عبدالغنی برادر کو طالبان تحریک کے بانی ملا عمر کا دستِ راست سمجھا جاتا تھا۔ وہ کئی برس پاکستان کی قید میں رہے اور ان کو طالبان کے مطالبے پر پاکستان کی قید سے رہائی دی گئی۔ ماہرین کے خیال میں عام طور پر اگر کسی مسلح جدوجہد کرنے والے گروپ میں کوئی رہنما کسی ملک یا فریق کی قید میں وقت گزارتا ہے تو اس کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اسے کوئی بھی اہم عہدہ دینے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ برادرکو یہ عہدہ اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ اسلام آبادکے قریب ہیں اور وہ مذاکرات میں پاکستان کے مفادات کو بھی پیشِ نظر رکھیں گے۔ تاہم کئی سیاسی مبصرین ان مذاکرات کے کامیاب ہونے کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔
دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کے خیال میں پاکستان کو تنہا ہی ان مذاکرات کے لئے کام نہیں کرنا چاہیے بلکہ خطے کے دوسرے ممالک جیسا کہ ایران اور روس کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے،’’ملا برادر پاکستان اور طالبان دونوں کے ہی قریب ہیں۔ بھارت اور افغان حکومت شاید اس بات کا برا منائیں لیکن پورے مذاکرات کے عمل کو ہی پاکستان آگے بڑھا رہا ہے۔ میرے خیال میں خطے کے ممالک کو داعش کی موجودگی کے حوالے سے بھی تحفظات ہیں، جن پر ان مذاکرات کے دوران کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔ تو میر ے خیال میں اسلام آباد کو خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر ان مذاکرات کو آگے بڑھانا چاہیے ورنہ ان کے کامیابی کے امکانات محدود ہو جائیں گے۔‘‘
لیکن کئی ناقدین کے خیال میں افغان حکومت کو مذاکرات سے باہر کر کے دوحہ بات چیت کی کامیابی کے امکانات کو پہلے ہی کم کر دیاگیا ہے۔ ان کے خیال میں کابل حکومت اس مسئلے کی سب سے اہم اسٹیک ہولڈر ہے اور اس کے بغیر مذاکرات کی کامیابی نا ممکن ہے۔
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے دنیا کے چالیس سے زائد ممالک افغانستان میں موجود رہے۔ بم دھماکے آج بھی اس ملک میں معمول کی بات ہیں۔ نیٹو افواج کا جنگی مشن اختتام پذیر ہو گیا ہے لیکن ان کی کامیابی پر سوالیہ نشان ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpaگیارہ ستمبر 2001ء کو القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے مجموعی طور پر چار مسافر طیارے اغوا کیے۔ دو کے ذریعے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا۔ ایک تیسرے جہاز کے ساتھ امریکی پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا جبکہ چوتھا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ ان حملوں میں کل تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpaان حملوں نے امریکی حکومت کو افغانستان پر حملہ آور ہونے کا جواز فراہم کیا اور بش حکومت نے سات اکتوبر کو اسامہ بن لادن کے ممکنہ ٹھکانوں پر بمباری کا آغاز کیا۔ تیرہ نومبر 2001ء کو دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا گیا۔ طالبان نے پاک افغان سرحدی علاقوں میں پسپائی اختیار کر لی۔
تصویر: picture-alliance/dpaطالبان کے زوال کے بعد اقوام متحدہ کی چھتری تلے افغانستان پر چار بڑے نسلی گروپوں کے رہنما بون کے قریبی مقام پیٹرزبرگ کی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ شرکاء نے جمہوریت کے نفاذ کے لیے پانچ دسمبر 2001ء کو صدر حامد کرزئی کے تحت عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق کیا۔
تصویر: Getty Imagesبائیس دسمبر 2001ء کو جرمن پارلیمان کی اکثریت نے اقوام متحدہ کے ’مشن فریڈم‘ میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔ انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) کو مقامی حکومت کی تعمیر نو میں مدد اور سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کا کام سونپا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpaچھ مارچ 2002ء کو ایک دو طرفہ لڑائی میں پہلا جرمن فوجی ہلاک ہوا۔ اس کے بعد جرمن فوجیوں کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا گیا۔ سات جون 2003ء کو کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس میں چار فوجی ہلاک اور دیگر انتیس زخمی ہوئے۔ جرمن فوجیوں پر یہ پہلا خودکش حملہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpaجنوری 2004ء کو افغانستان کے نئے جمہوری آئین کی منظوری دی گئی۔ 502 مندوبین نے صدارتی نظام کے تحت ’اسلامی جمہوریہ افغانستان‘ میں انتخابات کی راہ ہموار کی۔ نو اکتوبر 2004ء کو حامد کرزئی نے فتح کا جشن منایا۔
تصویر: picture alliance/AP Photoاکتیس مارچ 2004ء کو برلن کانفرنس کے دوران بین الاقوامی برادری نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 8.2 ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا۔ جرمنی نے 80 ملین یورو دینے کا وعدہ کیا۔ اس کانفرنس میں منشیات کے خلاف جنگ اور ایساف دستوں کی مضبوطی کا اعلان بھی کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photoاکتیس جنوری 2006ء کو لندن کانفرنس میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغانستان کے لیے پانچ سالہ منصوبے اور 10.5 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد سکیورٹی کے نام پر متعدد کانفرنسوں کا انعقاد ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpawebچار ستمبر 2009ء کو طالبان نے تیل کے بھرے دو ٹینکروں کو اغوا کیا۔ جرمن کرنل گیورگ کلائن نے فضائی حملے کے احکامات جاری کر دیے، جس کے نتیجے میں تقریبا ایک سو عام شہری مارے گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن فوجیوں کا یہ سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔ شدید تنقید کے بعد اس وقت کے وزیر دفاع کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpaاکتیس مئی 2010ء کو افغانستان میں جرمن فوجیوں کے ساتھ ملاقات کے بعد واپسی پر جرمن صدر ہورسٹ کوہلر نے ایک متنازعہ انٹرویو دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی جنگ جرمن اقتصادی مفادات کی وجہ سے لڑی جا رہی ہے۔ اس کے بعد ان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور انہیں مستعفی ہونا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpaانیس جولائی 2010ء کو سکیورٹی کے سخت انتظامات کے تحت کابل میں نیٹو ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا۔ افغانستان کے غیر مستحکم حالات کے باوجود سن 2014ء کے بعد غیر ملکی افواج کے انخلاء کا فیصلہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpaاٹھارہ ستمبر 2010ء کو افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کروایا گیا۔ بین الاقوامی مبصرین کے مطابق ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ کوئی بھی امیدوار واضح برتری حاصل نہ کر سکا اور فیصلہ صدر کرزئی کے حق میں ہوا۔
تصویر: picture alliance/dpaدو مئی 2011ء کو امریکا کی اسپیشل فورسز نے پاکستانی شہر ابیٹ آباد میں حملہ کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا۔ امریکی صدر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس خفیہ آپریشن کی براہ راست نگرانی کرتے رہے۔ ہزاروں امریکیوں نے بن لادن کی ہلاکت کا جشن منایا۔
تصویر: The White House/Pete Souza/Getty Imagesجنگ کے دس برس بعد پانچ دسمبر 2011ء کو ایک دوسری بین لاقوامی بون کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس میں سن 2024ء تک افغانستان کو مالی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اس کے بدلے میں صدر کرزئی نے اصلاحات کرنے، کرپشن کے خاتمے اور جمہوریت کے استحکام جیسے وعدے کیے۔
تصویر: Getty Imagesاٹھارہ جون 2013ء کو صدر حامد کرزئی نے ملک بھر میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دن کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس نے اس اعلان کی خوشیوں ختم کر کے رکھ دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpaافغانستان میں نیٹو کے جنگی مشن کا اختتام ہو گیا ہے۔ بین الاقوامی برادری مستقبل میں بھی افغانستان کو اربوں ڈالر بطور امداد فراہم کرے گی۔ لیکن افغانستان کے لیے آزادی اور خود مختاری کی طرف جانے والا یہ راستہ کانٹوں سے بھرپور ہے۔
تصویر: Shah Marai/AFP/Getty Images افغانستان اور پختون تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے دانشور ڈاکٹر سید عالم محسود کے خیال میں مذاکرات کی کامیابی کا راستہ کابل سے ہوکر جاتا ہے،’’اگر طالبان پاکستان، ایران اور دوسرے ممالک کا دورہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ان ممالک کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں، تو پھر وہ اپنی ہی حکومت سے بات چیت کیوں نہیں کرتے؟ افغانستان کے امن کے لئے کوئی مذاکرات کامیاب نہیں ہوں گے جب تک افغان حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس بات کا انکاری رہا ہے کہ وہ طالبان کی حمایت کرتا ہے لیکن اب ملا برادر کی تعیناتی سے نہ صرف کابل و نئی دہلی بلکہ پوری دنیا کہے گی کہ آپ طالبان کے پیچھے ہیں۔
تاہم کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں طالبان ایک سیاسی حقیقت ہیں، جنہوں نے افغانستان کے پچاس فیصد سے زیادہ حصے پر اپنی عملداری قائم کر رکھی ہے۔ کئی بین الاقوامی رپورٹیں بھی اس بات کا دعویٰ کر چکی ہیں کہ عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد افغانستان میں ہی موجود ہے اور وہیں تربیت حاصل کرتی ہے۔ لہذا طالبان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارے برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین کا کہنا ہے کہ ملا برادر کی تعیناتی پاکستان کی فتح کے طور پر مانی جائے گی،’’بھارت اور افغانستان اس تعیناتی پر اعتراضات اٹھائیں گے اور اس کے خلاف پروپیگنڈہ بھی کریں گے۔ لیکن طالبان ایک سیاسی حقیقت ہیں اور پاکستان کے ان سے مراسم بھی ہیں۔ لیکن صرف پاکستان ہی طالبان سے رابطے نہیں کر رہا۔ روس، ایران اور چین سب طالبان کو ایک سیاسی حقیقت سمجھتے ہیں اور اب امریکا کا مذاکرات کرنے کا فیصلہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ انہیں سیاسی حقیقت مانتا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت طاقت ور نہیں ہے،’’میرے خیال میں مذاکرات کامیاب ہوں گے اور کابل حکومت وہی کچھ مانے گی جو امریکا کہے گا۔ امریکا ان مذاکرات کا حصہ ہے اور جب ایک مرتبہ واشنگٹن فیصلہ کر لے گا تو افغان حکومت کے پاس اسے ماننے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہو گا۔‘‘