1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا عمر شیخ کو رہا کرنے کے فیصلے پر برہم

29 جنوری 2021

امریکا نے کہا ہے کہ پاکستانی سپریم کورٹ کا فیصلہ دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے تمام افراد کی توہین ہے۔

Ahmed Omar Saeed Sheikh
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Z. Mazhar

امریکا نے سن 2002 میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کے کیس میں چاروں ملزمین کو رہا کرنے کے پاکستانی سپریم کورٹ کے فیصلے پر سخت 'برہمی‘ کا اظہار کیا ہے اور اس فیصلے کو ”دنیا میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے تمام افراد کی توہین‘‘ قرار دیتے ہوئے پاکستانی حکومت سے’’اپنے قانونی آپشنز پر نظرثانی‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈینیئل پرل سن 2002 میں عسکریت پسندوں کے بارے میں ایک خبر پر تحقیق کر رہے تھے جب انہیں کراچی سے اغوا کر لیا گیا۔ ایک ماہ بعد ان کی لاش کراچی کے ایک علاقے سے برآمد کی گئی تھی۔ اس قتل کے سلسلے میں مبینہ ماسٹر مائنڈ برطانوی نژاد احمد عمر سعید شیخ اور ان کے تین ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

گزشتہ برس سندھ ہائی کورٹ نے ان سب کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔ پاکستانی سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کردی۔

ڈینیئل پرلتصویر: picture-alliance/dpa

امریکا کا سخت ردعمل

وائٹ ہاوس کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ امریکا وال اسٹریٹ جرنل کے نامہ نگار ڈینیئل پرل کے اغوا اور بہیمانہ قتل، جس نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، کے قصورواروں کو پاکستانی سپریم کورٹ کی جانب سے رہا کرنے کے فیصلے پر 'برہم‘ ہے۔

جین ساکی نے کہا،”عمر شیخ اور دیگر ملزمین کو رہا کرنے کا فیصلہ پاکستان سمیت دنیا میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے تمام افراد کی توہین ہے۔"  انہوں نے پاکستانی حکومت سے اپیل کی، ” اپنے تمام قانونی آپشنز پر تیزی سے نظر ثانی کرے جس میں امریکی شہری اور صحافی کے بہیمانہ قتل کا مقدمہ امریکا میں چلانے کا متبادل بھی شامل ہے۔“

بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے سرکاری ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ امریکا عمر شیخ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے تیار ہے کیونکہ وہ اس کے ایک شہری کے خلاف بھیانک جرائم میں ملوث ہیں۔ بیان کے مطابق ”ہم پرل خاندان کے لیے انصاف کے حصول اور دہشت گردوں کو جوابدہ بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔"

اسلام آباد نے وائٹ ہاوس کے اس بیان پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

تصویر: Waseem Khan/AP Photo/picture alliance

پاکستانی سپریم کورٹ کا فیصلہ

سپریم کورٹ نے جمعرات کو ڈینیئل پرل قتل کیس میں سندھ حکومت کی اپیلیں مسترد کرتے ہوئے، احمد عمر شیخ اور تین دیگر ملزمین کے معاملے میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا فیصلہ دیا تھا۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وکیل دفاع محمود شیخ نے بتایا کہ،''عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس مقدمے میں انہوں (شیخ) نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔‘‘عدالتی حکم میں کہا گیا کہ مقدمے میں شامل عمر شیخ کے تین ساتھیوں کو بھی ان کے ساتھ ہی رہا کر دیا جائے حالانکہ یہ واضح نہیں تھا کہ ایسا کب ہوگا۔

گزشتہ برس سندھ ہائی کورٹ نے عمر شیخ کی سزائے موت کو سات سال قید میں تبدیل جبکہ تین دیگر ملزمان کو 18 برس بعد رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ حکومت سندھ اور ڈینیئل پرل کے والدین نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

پرل کے کنبے کے ایک وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے وہ'صدمے‘ میں ہیں اور یہ فیصلہ ’’انصاف کا مذاق‘‘ ہے۔

عمر شیخ کے والد وکیل دفاع کے ساتھتصویر: Waseem Khan/AP Photo/picture alliance

احمد عمر شیخ کون ہیں؟

احمد عمر سعید شیخ برطانوی نژاد شہری ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس میں تعلیم حاصل کی ہے۔ انہیں ڈینیئل پرل کے اغوا کے چند روز بعد گرفتار کیا گیا تھا اور مقدمہ چلنے کے بعد انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے انہیں پھانسی کی سزا سنائی تھی جبکہ دیگر تین ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ احمد عمر سعید شیخ اٹھارہ برس سے جیل میں ہی ہیں۔

ڈینیئل پرل کی موت کی تحقیقات کے بعد جنوری 2011 میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں پرل پروجیکٹ کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں ہولناک انکشافات کیے گئے تھے اور بتایا گیا  تھا کہ پرل کے قتل میں غلط لوگوں کو سزا سنائی گئی۔

ڈینیئل پرل کی دوست اور وال سٹریٹ جرنل میں کام کرنے والی ان کی سابق ساتھی اسرا نعمانی اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی قیادت میں ہونے والی تحقیقات میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ڈینیئل پرل کو خالد عمر شیخ نے قتل کیا، جو امریکا میں نائن الیون 2001ء  کے حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ تھے، نا کہ احمد سعید عمر شیخ نے۔

ڈینیئل پرل کو جنوری 2002ء میں کراچی سے اس وقت اغوا کر لیا گیا تھا، جب وہ القاعدہ کے عسکریت پسندوں کے بارے میں اپنی ایک اسٹوری پر کام کر رہے تھے۔ وہ اس وقت وال اسٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا بیورو کے چیف تھے۔ تقریباً ایک ماہ بعد امریکی قونصل خانے کو ایک ویڈیو بھیجی گئی تھی، جس میں ان کا سر قلم ہوتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

ج ا / ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں