امریکا لیبیا میں داعش کا انسداد کرے گا، اوباما کا عزم
29 جنوری 2016![USA Barack Obama PK Iran Nuklear Deal](https://static.dw.com/image/18985698_800.webp)
واشنگٹن سے جمعہ 29 جنوری کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق شمالی افریقی ملک لیبیا میں طاقت کے موجودہ خلا کے باعث اس حوالے سے شدید خدشات پائے جاتے ہیں کہ وہاں شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں پر قابض دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش اپنے پاؤں جما سکتی ہے۔ اسی لیے صدر باراک اوباما نے اس بارے میں مشوروں کے لیے اپنے مشیروں، حکومتی ارکان اور اعلیٰ عسکری رہنماؤں پر مشتمل نیشنل سکیورٹی کونسل کا ایک اجلاس بھی بلایا تھا۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے قومی سلامتی سے متعلق اس مشاورتی اجلاس کے بعد آج بتایا گیا، ’’صدر اوباما نے زور دے کر کہا کہ امریکا ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی شدت پسندی کے انسداد کے لیے اور دہشت گردی کے منصوبہ سازوں کو کسی بھی ملک میں اور کسی بھی وقت ناکام بنانے کے لیے اپنی کارروائیاں جاری رکھے گا۔‘‘
وائٹ ہاؤس کے ترجمان کی طرف سے یہ بھی کہا گیا، ’’صدر اوباما نے نیشنل سکیورٹی ٹیم کو یہ ہدایت بھی کی کہ وہ لیبیا اور دیگر ملکوں میں، جہاں آئی ایس یا داعش کے عسکریت پسند اپنی موجودگی کو استحکام دینے کی کوششیں کر رہے ہیں، انسداد دہشت گردی کی موجودہ کاوشوں کی تائید و حمایت جاری رکھی جائے اور بہتر حکومتی کارکردگی کو تقریت دینے کا عمل بھی جاری رہنا چاہیے۔‘‘
لیبیا 2011ء کے انقلاب میں عشروں سے برسراقتدار ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور حکومت کے خاتمے اور پھر مظاہرین کے ہاتھوں قذافی کی ہلاکت کے بعد سے سیاسی عدم استحکام اور مسلسل خونریزی کا شکار ہے۔ اس وقت لیبیا میں دو متوازی لیکن حریف حکومتیں قائم ہیں اور قومی پارلیمانی ادارے بھی دو ہیں۔
ان میں سے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ملکی انتظامیہ مشرقی شہر طبرق سے اپنا کام کر رہی ہے جبکہ مختلف ملیشیا گروپوں کی حمایت سے اقتدار میں آنے والی اور عالمی سطح پر غیر تسلیم شدہ انتظامیہ طرابلس کو اپنا دارالحکومت بنائے ہوئے ہے۔
اے ایف پی کے مطابق عالمی طاقتیں لیبیا میں ان حریف دھڑوں سے کئی بار یہ مطالبہ کر چکی ہیں کہ وہ اس قومی حکومت کی حمایت کا اعلان کریں، جو گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی ثالثی میں طے پانے والے ایک معاہدے کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی۔
اس متحدہ قومی حکومت کا قیام اس مقصد کے تحت عمل میں آیا تھا کہ لیبیا میں وہ سیاسی جمود اور عدم استحکام ختم ہو سکے، جو وہاں پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں کو ملنے والی طاقت کا سبب بنا ہے۔ لیکن اس شمالی افریقی ملک میں دونوں بڑے حریف سیاسی اور عسکری دھڑوں نے ابھی تک اس متحدہ حکومت کے لیے نہ تو اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی اسے تسلیم کیا ہے۔