امریکا: ماحولیات سے متعلق نئی ہدایات اور اجلاس کا اعلان
28 جنوری 2021
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ماحولیات کی تبدیلی انسانی وجود کے لیے ایک خطرہ ہے۔ انہوں نے آئندہ برس اپریل میں اس موضوع پر ایک چوٹی کانفرنس کی میزبانی کا بھی اعلان کیا ہے۔
تصویر: Evan Vucci/AP/picture alliance
اشتہار
نئے امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز ایسے کئی حکم ناموں پر دستخط کیے جن کا مقصد بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کو روکنا ہے۔ انہوں نے اپریل 2022 میں امریکا میں ماحولیات سے متعلق ایک چوٹی کانفرنس کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آب و ہوا کی تبدیلی ایک اہم مسئلہ ہے اور اس کے خلاف جنگ میں امریکا کو قائدانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
بائیڈن نے عہدہ صدارت کے پہلے ہی روز ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے میں واپسی کا اعلان کیا تھا اور اپنی انتظامیہ سے ماحولیات سے متعلق کئی ماہرین کی تقرری بھی کی تھی۔ انہوں نے سابق وزیر خارجہ جان کیری کو ماحولیات سے متعلق اپنا سفیر مقرر کیا ہے۔
عالمی حدت کے خلاف اتحاد
ماحولیات سے متعلق متعدد حکم ناموں پر دستخط کے بعد صدر بائیڈن نے کہا، ''جس طرح ہمیں کووڈ انیس سے نمٹنے کے لیے ایک متحدہ قومی حکمت عملی کی ضرورت ہے اسی طرح ہمیں ماحولیات سے نمٹنے کے لیے متحدہ قومی کارروائی کی اشد ضرورت ہے کیونکہ آب و ہوا کی تبدیلی بھی ایک بحران ہے۔''
ان کا کہنا تھا، ''اس کے خلاف بین الاقوامی کارروائی کی ہمیں قیادت کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ جیسا کہ جان کیری پہلے ہی کئی بار کہہ چکے ہیں، کہ امریکا تنہا کسی بھی چیلنج کو حل نہیں کرسکتا ہے۔''
کشمیر کے ماحولیاتی کارکن کا خاص کارنامہ: دو لاکھ درخت لگائے
03:46
This browser does not support the video element.
جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی ماحولیات کے مسئلے کو اہم بتایا تھا اور بدھ کے روز بھی کئی بار اس بات کو دہرایا کہ ماحولیات کی تبدیلی جہاں انسانی وجود کے لیے ایک خطرہ ہے وہیں معاشی ترقی کے لیے ایک موقع بھی ہے۔ اس حوالے ان کی پالیسی ان کے پیش رو ٹرمپ سے بالکل مختلف ہے۔
وقت بہت کم ہے
اس موقع پر جو بائیڈن نے کہ، ''میرے خیال سے، ہم نے ماحولیات کے اس بحران سے نمٹنے کے لیے پہلے ہی بہت طویل انتظار کیا ہے۔ ہم مزید انتظار نہیں کرسکتے ہیں۔ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ہم اسے محسوس کرتے ہیں۔ ہم اسے اپنی ہڈیوں میں پہچانتے ہیں۔ اور اب کام کرنے کا وقت آگیا ہے۔''
امریکی صدر کے اس فیصلے سے واضح ہوگیا ہے کہ ماحولیات کی تبدیلی نہ صرف اہم قومی سلامتی مسئلہ ہے بلکہ وائٹ ہاؤس کی خارجہ پالیسی کا بھی اہم جزء ہے اور امریکا اپنی وفاقی اراضی کے کم از کم 30 فیصد حصے کو تحفظ فراہم کریگا۔
ماحولیات پر اجلاس
بائیڈن نے اپریل 2022 میں امریکا میں ماحولیات سے متعلق ایک چوٹی اجلاس کا بھی اعلان کیا ہے۔ جس میں پیرس معاہدے کے مطابق کاربن گیسوں کے اخراج میں مزید کمی کا عہد کیا جائے گا۔ پیرس معاہدے کا اصل مقصد گرین ہاؤس گیسز میں کمی کرتے ہوئے عالمی درجہ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری سیلسیس تک کی کمی کرنا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)
بقاء کے خطرے سے دوچار قدرتی خزانے
ایمازون سے بحیرہ مردار تک، کئی انوکھے اور غیرمعمولی قدرتی مناظر کو سیاحت اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث بقاء کا خطرہ لاحق ہے۔
تصویر: picture-alliance/JOKER/W. G. Allgöwer
ایمازون کے جنگلات، زمین کے پھیپڑے
جنوبی امریکا کے نو ممالک کا حصہ یہ جنگلات فقط ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کم کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ یہ لاکھوں پودوں اور جنگلی جانوروں کی آماج گاہ بھی ہیں۔ تاہم 2020 ان جنگلات کی کٹائی کے اعتبار سے پچھلے بارہ برس کا بدترین سال رہا۔ ان جنگلات کو شدید خشک سالی کا بھی سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Arrevad
دی گریٹ بیریئر ریف، اسی برس باقی ہیں
چار سو اقسام کی کورل، پانچ سو انواع کی مچھلیوں اور پانچ ہزار قسموں کی دیگر آبی حیات کا مسکن گریٹ بیریئر ریف آسٹریلیا کے شمال مشرقی ساحلی حصے کے ساتھ واقع ہے۔ تاہم پانی کے بلند ہوتے درجہ حرارت کی وجہ سے یہاں الجی کی بقاء خطرے میں ہے۔ نصف ریف اب تک ختم ہو چکی ہے۔ 2100 تک اگر ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ بھی درجہ حرارت بڑھتا ہے، تو یہ کورل ریف ختم ہو سکتی ہے۔
تصویر: University of Exeter/Tim Gordon
ڈارون کی جنت خطرے میں
ایکواڈور کے گالاپاگوس جزائر جنوبی امریکی مغربی ساحلوں سے ایک ہزار کلومیٹر دور ہیں اور عالمی ورثہ کہلاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہاں پایا جانے والا متنوع فاؤنا اور فلورا ہے، جو آتش فشانی زمین پر پھلتا پھولتا ہے۔ یہاں کے حیاتیاتی تنوع اور ارتقا ہی نے ڈارون کو متاثر کیا تھا۔ یہ انوکھی قدرتی جنت لیکن اب سیاحت، آلودگی اور دیگر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے خطرے میں ہے۔
تصویر: imago/Westend61
ہمالیہ، پگھلتے گلیشیئر اور کچرے کے پہاڑ
انیس سو اسی میں پہلی مرتبہ رائن ہولڈ میسنر نے بغیر اضافی اکسیجن لگائے ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا تھا۔ تب سے اب تک دنیا کا یہ بلند ترین پہاڑ دس ہزار سے زائد مرتبہ سر کیا جا چکا ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں سیاح پہنچتے ہیں اور یہاں کچرے کے انبار چھوڑ جاتے ہیں۔ ہمالیہ کو زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے گلیشیئرز کے پگھلنے کا سامنا بھی ہے۔
تصویر: AFP/Project Possible
یسوعا ٹری نیشنل پارک
کیلی فورنیا کا نیشنل پارک یشوعا درخت کے نام پر ہے، تاہم یہ درخت شاید رواں صدی کے اختتام پر مکمل طور پر غائب ہو جائے اور وجہ ہے بلند ہوتا درجہ حرارت۔ مسلسل خشک سالی کی وجہ سے صحرائی یوکا کا پودا بھی مشکلات کا شکار ہے۔ نسبتاﹰ بلند سطح پر اور قدرے ٹھنڈے ماحول میں موجود یوکا کے پودے بھی بارآوری کے اعتبار سے جیسے بانجھ ہوتے جا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/United-Archives
کِلیمانجارومیں برف نہیں
یہ افریقہ کا سب سے بڑا پہاڑی سلسلہ ہے،جہاں تین آتش فشاں موجود ہیں۔ کیبو کہلانے والا یہ سلسلہ سطح سمندر سے پانچ ہزار آٹھ سو پچانوے تک بلند ہے۔ اس کی سفید چوٹی، سن 1912 تا 2009 تک 85 فیصد برف کھو چکی ہے۔ محققین کے مطابق تنزانیہ کی نشانی کہلانے والی یہ برفانی چوٹی زمینی حدت میں اضافے سے متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
ماچو پیچو، سیاحت کے نشانات
پیرو کا یہ تاریخی مقام ہر برس ڈیڑھ ملین سیاح دیکھتا ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے ثقافت یونیسکو تاہم کہتا ہے کہ یہاں کم سیاح جائیں، کیوں کہ لوگوں کے پیروں کے نشانات اس تاریخی ڈھانچے کو عدم استحکام کا شکار کر رہے ہیں۔ سیاحت نے اس علاقے کے ماحول کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Wojtkowski
مالدیپ، سمندر میں کھوتا ہوا
اگر کوئی کہے کہ مالدیپ کو دیکھ آئیے، جب تک وہ نظر آ رہا ہے، تو سمجھ لیجیے کہ آپ اس ملک کو گم ہو جانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہوائی سفر ماحول کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ زمینی درجہ حرارت میں اضافے کا مطلب ہے سمندری سطح میں اضافہ۔ سمندری سطح ہر سال تین اعشاریہ سات سینٹی میٹر بلند ہو رہی ہے۔ مالدیپ سمندر سے فقط ڈیڑھ میٹر بلند ہے۔
تصویر: DW/R. Richter
نکاراگوا کی جھیل
مستقبل میں چھوٹی کشتیوں کی بجائے وسطی امریکا کی سب سے بڑی جھیل میں بڑے بڑے جہاز چلیں گے۔ وجہ ہے وہ نکوراگوا نہر کا منصوبہ۔ اس نہر کے ذریعے بحیرہء کیریبیئن کو بحرالکاہل سے جوڑا جائے گا۔ ماحولیات کے ماہرین خطرات ظاہر کر رہے ہیں کہ اس سے جھیل کے میٹھے پانی سے جڑے پورے ایکوسسٹم کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بحیرہ مردار کی موت
سطح سمندر سے ساڑھے چار سو میٹر نیچے اور چاروں جانب سے خشکی میں گھرے بحیرہ مردار کو بھی دھیرے دھیرے موت کا سامنا ہے۔ یہ انوکھی نمکین جھیل ختم ہو سکتی ہے۔ اسرائیل اور اردن دریائے اردن کا پانی استعمال کر رہے ہیں اور اس سے بحیرہء مردار کی سطح ہر برس قریب ایک میٹر نیچے جا رہی ہے۔