امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے مہاجرین کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ایک معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کیا ہے۔
تصویر: Getty Images/D. Angerer
اشتہار
امریکا مہاجرین اور پناہ گزینوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ایک معاہدے سے الگ ہو گیا ہے۔ امریکی سفیر کے مطابق مہاجرین اور پناہ گزینوں کی دوبارہ آبادکاری سے متعلق یہ منصوبہ امریکی پالیسی سے متصادم ہے۔
ستمبر 2016ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران 193 رکن ممالک نے مہاجرین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے ایک سیاسی معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔ اس معاہدے کو ’’نیویارک ڈیکلریشن فار ریفیوجی اینڈ مائیگرینٹس‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کا مقصد دنیا بھر میں تارکین وطن کو تعلیم اور روزگار تک رسائی ممکن بنانا ہے۔ تاہم اس معاہدے پر عمل کرنا لازم نہیں تھا۔
گزشتہ روز امریکی مشن نے اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری کو آگاہ کیا کہ ’’نیو یارک ڈیکلریشن میں بیشتر شرائط ایسی ہیں جو امریکا کی مہاجرت کی پالیسی کے برعکس ہیں۔ اسی باعث امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ برس بین الاقوامی سطح پر حتمی اتفاق رائے حاصل کرنے والے اس معاہدے سے دستبرداری کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
’میکسیکو باڑ یا ٹرمپ کی دیوار‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو سے ملنے والی امریکی سرحد پر ایک دیوار تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ ہو گا۔ کئی سالوں سے اس سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے باڑ لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/J. L. Gonzalez
ٹرمپ کا تجربہ
اپنی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا، ’’اپنی جنوبی سرحد پر میں ایک دیوار تعمیر کرنا چاہتا ہوں اور کوئی بھی مجھ سے بہتر دیواریں نہیں بنا سکتا۔ میں اس دیوار کی تعمیر کے اخراجات میکسیکو سے حاصل کروں گا۔‘‘ بہرحال ابھی تک انہوں نے اونچی عمارتین اور ہوٹل ہی بنائے ہیں۔ ٹرمپ کے تارکین وطن سے متعلق دس نکاتی منصوبے میں اس دیوار کی تعمیر کو اوّلین ترجیح حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Torres
کام جاری ہے
امریکا اور میکسیکو کے مابین سرحد تقریباً تین ہزار دو سو کلومیٹر طویل ہے۔ ان میں سے گیارہ سو کلومیٹر پر پہلے ہی باڑ لگائی جا چکی ہے۔ یہ سرحد چار امریکی اور میکسیکو کی چھ ریاستوں کے درمیان سے گزرتی ہے۔ دشوار گزار راستوں کی وجہ سے ریاست نیو میکسیکو میں اس باڑ کی تعمیر کا کام ادھورا ہی رہ گیا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
حالات کے ہاتھوں مجبور
غیر قانونی طریقوں سے میکسیکو سے امریکا میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سالانہ بنتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق میکسیکو سے ہی ہوتا ہے۔ میکسیکو کے شہریوں کو بہت ہی کم امریکی ویزا جاری کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ ایک بہتر زندگی کا خواب لے کر امریکا آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Zepeda
باڑ کی وجہ سے تقسیم
یہ خاندان باڑ کی وجہ سے تقسیم ہیں تاہم ایک دوسرے مصافحہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے ان لوگوں کے جلد ہی ایک دوسرے سے ملنے کے امکانات بھی تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/J. West
تعصب
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا،’’میکسیکو اپنے اُن شہریوں کو ادھر بھیجتا ہے، جو کسی کام کے نہیں اور نا ہی ان میں کوئی قابلیت ہے۔ یہاں مسائل کا شکار میکسیکن ہی آتے ہیں، جو منشیات فروش اور جرائم پیشہ ہونے کے علاوہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔‘‘ ٹرمپ ایسے تمام جرائم پیشہ افراد کو ملک بدر کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Bull
ریگستان، سرحد اور واپسی
میکسیکو کے بہت سے شہریوں کے لیے امریکا کا سفر اس باڑ پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ کچھ کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے جبکہ کچھ اس سرحد کو پار کرنے کی قیمت اپنی جان سے چکاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ سرحدی محافظین کی جانب سے میکسیکو میں فائرنگ کے الزامات عائد کرتے ہیں۔ ایک ایسے واقعے میں میکسیکو کے چھ ایسے شہری ہلاک ہو گئے تھے، جو سرحد پار نہیں کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: Reuters/D.A. Garcia
اپنا محافظ خود
یہ ایک امریکی کاشتکار جم چلٹن ہے، جو اس بندوق کے ساتھ اپنی زمین کی نگرانی کر رہا ہے۔ اس کا دو لاکھ مربع میٹر پر محیط یہ فارم میکسیکو کی سرحد کے پاس جنوب مشرقی ایریزونا میں واقع ہے۔ یہاں پر صرف یہ خار دار تار ہی لگی ہے۔ جم چلٹن خود ہی اپنا محافظ ہے اور اس دوران اسے کئی مرتبہ اپنی یہ شاٹ گن اٹھانی پڑی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F.J. Brown
عجب انداز میں اختتام
عام بول چال میں اس تقریباً ساڑھے بائیس کلومیٹر طویل باڑ کو ’تورتیا وال‘ کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔ ’تورتیا‘ میکسیکو کی ایک مخصوص قسم کی ایک روٹی کو کہا جاتا ہے۔ یہ باڑ سان ڈیاگو (کیلی فورنیا) اور بحرالکاہل کے درمیان نصب کی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Zepeda
8 تصاویر1 | 8
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی کا کہنا تھا، ’’امریکا دنیا بھر میں مہاجرین اور تارکین وطن کی مدد کے لیے تعاون جاری رکھے گا۔ لیکن امریکا کی امیگریشن پالیسی کا فیصلہ صرف اور صرف امریکی شہری ہی کرسکتے ہیں۔‘‘
امریکی سفیر کا مزید کہنا تھا، ’’ہم امریکا کے بہترین مفاد میں فیصلہ کریں گے کہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کیسے کی جائے اور کس کو امریکا میں داخلے کی اجازت دی جائے‘‘۔ نکی ہیلی کے مطابق، ’’نیو یارک ڈیکلریشن میں طے شدہ عالمی طریقہ کار امریکا کی خودمختاری کے لیے سازگار نہیں ہے۔‘‘
امریکی صدر ٹرمپ کی سب سے پہلے امریکا 'America First' کی پالیسی کے تحت امریکا متعدد دیگر عالمی اداروں اور معاہدوں سے دستبردار ہو چکا ہے۔ ان معاہدوں میں سر فہرست موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے طےپانے والا پیرس معاہدہ بھی شامل ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ نے اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے ثقافت اور تعلیم UNESCO سے بھی علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کی وجہ اس ادارے کی جانب سے ’اسرائیل کے خلاف جانبدارانہ‘ اقدامات کو قرار دیا گیا تھا۔