1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا میں امیگریشن جیل پر حملہ، مظاہرے پھر شروع

15 جولائی 2019

امیگریشن جیل پر ایک مسلح حملہ آور کی جانب سے دھماکا خیز مواد پھینکے جانے کے ایک روز بعد مظاہرین اس جیل کے باہر دوبارہ جمع ہو گئے ہیں۔ یہ حملہ آور بعد میں مردہ حالت میں ملا تھا۔

Mexiko Grenze zu USA in Tijuana
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Bull

ہفتے کو روز جائے وقوعہ پر جب چار پولیس اہلکار پہنچے تو انہیں وہاں 69 سالہ ویلم فان سپرونسن مردہ حالت میں ملے۔ اس واقعے کے بعد نجی کمپنی کی ملکیت ٹیکما نارتھ ویسٹ حراستی مرکز کے باہر مظاہرین جمع ہو گئے۔ یہ مظاہرین امریکا کی امیگریشن اور کسٹمز سے متعلق پالیسیوں اور اس حراستی مرکز کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں۔ مقامی ٹی وی چینلز کے مطابق قریب ایک سو مظاہرین اس مرکز کے باہر جمع ہوئے۔

یورپ میں ویزا لے کر آنے والے بھی پناہ کے درخواست دہندگان

امریکیوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ

اس حراستی مرکز میں ان تارکین وطن کو رکھا جاتا ہے، جنہیں ملک بدر کیا جانا ہو۔ اس کے علاوہ اس حراستی مرکز میں بچوں سے الگ کر دیے گئے تارکین وطن والدین کو بھی قید کیا جاتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیرقانونی ترک وطن سے متعلق 'صفر برداشت‘ کی پالیسی کے تحت امریکا میں غیرقانونی طور پر پہنچنے والوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

اس حراستی مرکز کے ایک منتظم جی ای او گروپ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسے اس مرکز کے باہر مقامی افراد کے جمع ہونے کا علم ہے: ''ہم تمام افراد کے حقوق کا احترام کرتے ہیں، جو اپنی رائے کے اظہار کر رہے ہیں۔‘‘

اتوار 14 جولائی کو پیش آنے والے اس واقعے کے بعد مقامی میڈیا نے حراستی مرکز کی دیواروں پر لگنے والی گولیوں کے نشانات بھی دکھائے۔ پولیس نے بعد میں اس واقعے کے مشتبہ ملزم فان سپرونسن کے گھر کی تلاشی بھی لی۔

اس ملزم کی دوست نے مقامی اخبار سے بات چیت میں کہا کہ فان سپرونسن اس مرکز پر حملہ کر کے حراستی مرکز میں موجود افراد کو انتظامیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا پیغام دینا چاہتا تھا کیوں کہ وہ فاشزم کے خلاف نظریات کا حامل تھا: ''وہ جانتا تھا کہ وہ ایسے حملے میں مارا جائے گا، مگر اس کے باوجود وہ اپنے سیاسی نظریات کے اظہار کے لیے یہ حملہ کرنے میں کامیاب رہا۔‘‘

ع ت، ع الف (اے پی، روئٹرز)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں