امریکا میں اندھا دھند فائرنگ اور قتل عام: 2019 بدترین سال
29 دسمبر 2019
امریکا میں رواں برس اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں شہریوں کے قتل کے واقعات ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔ حالیہ امریکی تاریخ میں 2019ء قتل عام اور فائرنگ کے واقعات کے حوالے سے بدترین سال رہا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے پی، امریکی خبار یو ایس اے ٹوڈے اور نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی نے اعداد و شمار کے جائزے کے تناظر میں بتایا ہے کہ سن 2019ء قتل عام کے اعتبار سے بدترین رہا۔ اس سال مجموعی طور پر فائرنگ کے 41 واقعات رونما ہوئے، جن میں مجموعی طور پر دو سو گیارہ افراد مارے گئے۔ اعداد و شمار کے مطابق ان میں 33 واقعات میں آتشیں اسلحے کا استعمال ہوا۔
ان اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ سن 1970 کی دہائی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا میں قتل عام کے اتنے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں۔ اس سے قبل سن 2006 میں ایسے 38 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ رواں برس قتل عام کے واقعات میں اضافہ تو ہوا، تاہم ان واقعات میں ہونے والی ہلاکتیں سن 2017 کے مقابلے میں کم رہیں۔ سن 2017ء میں مجموعی طور پر 224 افراد ہلاک ہوئے تھے اور ان واقعات میں سے لاس ویگاس میں ایک عمارت سے فائرنگ کر کے ایک ہجوم کو نشانہ بنانے کے واقعے میں 58 افراد مارے گئے تھے۔ اس واقعے کو جدید امریکی تاریخ کا اس انداز کا انوکھا اور بدترین واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق رواں برس قتل عام کے آٹھ ایسے واقعات پیش آئے، جن میں آتشیں اسلحہ استعمال نہیں کیا گیا تھا بلکہ چاقو، کلہاڑی یا دیگر ہتھیاروں کی مدد لی گئی تھی۔ ان میں زیادہ تر ہلاکتیں، خاندانی جھگڑوں، منشیات اور جرائم پیشہ گروہوں کی لڑائی یا پھر حملہ آوروں کے اپنے ساتھی ملازمین یا رشتہ داروں پر غصے اور طیش کی حالت میں حملوں کی وجہ سے ہوئیں۔
امریکا میں اندھا دھند فائرنگ کے ہلاکت خیز واقعات
امریکا میں لوگوں پر بلااشتعال فائرنگ کے ہلاکت خیز واقعات جدید دور کا المیہ بن چکے ہیں۔ ان واقعات میں اوسطاً سالانہ 30 ہزار انسان مارے جاتے ہیں۔ ایسی اندھا دھند فائرنگ کے واقعات کسی بھی وقت کسی بھی جگہ رونما ہو سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/S. Platt
تھاؤزنڈ اوکس کے ریستوراں میں فائرنگ
سن 2018 نومبر میں ایک اٹھائیس سالہ سابق میرین فوجی نے لاس اینجلس شہر کے نواحی علاقے تھاؤزنڈ اوکس کے ایک ریسٹورنٹ میں فائرنگ کر کے بارہ افراد کو ہلاک اور دس دیگر کو زخمی کر دیا۔ بارڈر لائن اینڈ گرل نامی ریسٹورنٹ میں ایک کالج کے نوجوان طلبہ کی پارٹی جاری تھی۔ سابق امریکی فوجی نے حملے کے بعد خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Terrill
پِٹس برگ کا کنیسہ، دعائیہ عبادت کے دوران فائرنگ
اکتوبر سن 2018 میں پِٹس برگ شہر کے نواحی یہودی علاقے کی ایک قدیمی عبادت گاہ میں کی گئی فائرنگ سے گیارہ عبادت گزار مارے گئے۔ اس حملے کا ملزم گرفتار کر لیا گیا اور اسے انتیس فوجداری الزامات کا سامنا ہے۔ امکان ہے کہ استغاثہ اس کے لیے موت کی سزا کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اس حملہ آور نے پولیس کو بتایا تھا کہ اس کے نزدیک یہودی نسل کشی کے مرتکب ہوئے تھے اور وہ انہیں ہلاک کرنا چاہتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Wittpenn
پارک لینڈ، فلوریڈا
امریکی ریاست فلوریڈا کے علاقے پارک لینڈ کے ایک ہائی اسکول کے سابق طالب علم نے فروری 2018ء میں اپنے اسکول میں داخل ہو کر اپنے ساتھی طلبہ پر فائرنگ کی اور کم از کم سترہ افراد کو ہلاک کر دیا۔ اس واقعے کے بعد امریکی طلبہ نے اسلحے پر پابندی کے حق میں ملک گیر احتجاج بھی کیا۔
تصویر: picture-alliance/E.Rua
ٹیکساس کے چرچ میں دو درجن سے زائد ہلاکتیں
امریکی ریاست ٹیکساس کے علاقے سدرلینڈ اسپرنگز میں ایک چھبیس سالہ نوجوان نے اپنے سسرالی رشتہ داروں سے ناراضی کے بعد ایک گرجا گھر میں داخل ہو کر حملہ کیا۔ فرسٹ بیپٹسٹ چرچ میں نومبر سن 2017 میں کی گئی اس فائرنگ کے نتیجے میں چھبیس افراد مارے گئے تھے۔ ہلاک شدگان کی عمریں اٹھارہ سے بہتر برس کے درمیان تھیں۔
لاس ویگاس کے نواح میں منعقدہ کنٹری میوزک فیسٹیول کے شرکاء پر کی گئی فائرنگ کو جدید امریکی تاریخ کا سب سے خونی حملہ قرار دیا گیا تھا۔ ایک چونسٹھ سالہ حملہ آور نے ایک ہوٹل کی کھڑکی سے میلے کے شرکاء پر بلااشتعال فائرنگ کر کے انسٹھ افراد کو ہلاک کر دیا۔ آٹھ سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ اس شخص نے بعد میں خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی تھی۔ اس حملے کے محرکات ابھی تک غیر واضح ہیں۔
تصویر: picture-alliance/M. J. Sanchez
پَلس نائٹ کلب، اورلینڈو
ایک افغان نژاد امریکی نے ریاست فلوریڈا کے بڑے شہر اورلینڈو کے ہم جنس پرستوں کے ایک کلب میں داخل ہو کر کم از کم پچاس افراد کو اپنی رائفل سے بلااشتعال فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ جون سن 2016 میں کیے گئے اس حملے کی وجہ حملہ آور کی ہم جنس پرستی سے شدید نفرت تھی۔ اس حملے کی دنیا بھر کے ہم جنس پرست حلقوں نے مذمت کی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Young
سینڈی ہُک اسکول، نیو ٹاؤن، کنَیٹیکٹ
امریکی ریاست کنیٹیکٹ کے شہر نیو ٹاؤن کے سینڈی ہُک ایلیمنٹری اسکول میں ایک بیس سالہ نوجوان نے داخل ہو کر فائرنگ کی اور کم از کم بیس افراد کو ہلاک کر دیا۔ ہلاک ہونے والوں میں چھ اساتذہ کے علاوہ باقی سب چھ سے آٹھ برس تک کی عمر کے بچے تھے۔ حملہ آور نے اس حملے سے قبل اپنی والدہ کو بھی گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔ بعد ازاں اس نوجوان نے خود کشی کر لی تھی۔
تصویر: AP
سینچری سِکسٹین تھیٹر، اورورا
ریاست کولوراڈو کے شہر اورورا میں ایک فلم دیکھنے والوں کو جولائی سن 2012 میں ایک مسلح شخص کی گولیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس فائرنگ میں چودہ افراد ہلاک اور پچاس دیگر زخمی ہوئے تھے۔ فلم بین بیٹ مین سیریز کی فلم ’دی ڈارک نائٹ رائزز‘ دیکھ رہے تھے جب ان پر فائرنگ کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ورجینیا ٹیک یونیورسٹی، بلیکس برگ
ورجینیا کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں ایک طالب علم نے فائرنگ کر کے بتیس افراد کو قتل کر دیا تھا۔ اپریل سن 2007 کی اس فائرنگ کے بعد امریکی عوام نے بہت بااثر نیشنل رائفلز ایسوسی ایشن کی مخالفت شروع کر دی تھی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ یہ تنظیم امریکا میں گن کنٹرول قوانین کی مخالف ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Maury
کولمبائن ہائی اسکول، لِٹلٹن
ریاست کولوراڈو کے شہر لِٹلٹن میں کی گئی اس فائرنگ نے پوری امریکی قوم کو صدمے سے دوچار کر دیا تھا۔ یہ کسی اسکول میں اندھا دھند فائرنگ کا پہلا واقعہ تھا۔ کولمبائن ہائی اسکول کے دو ناراض طلبہ خودکار ہتھیار لے کر اسکول میں داخل ہوئے تھے اور انہوں نے فائرنگ کر کے تیرہ انسانوں کی جان لے لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Jefferson County Sheriff's Department
10 تصاویر1 | 10
رواں برس ورجینیا بیچ اور ڈیٹن اور اوڈیسا کے علاوہ ریاست ٹیکساس کے ایل پاسو شہر میں پیش آنے والے واقعات کے بعد امریکا بھر میں خصوصاﹰ ڈیموکریٹ حلقوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر آتشیں اسلحے تک رسائی محدود بنانے کے لیے قانون سازی اور نئے اور مزید سخت ضوابط متعارف کرائے جانے پر زور دیا گیا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ قتل عام کے آٹھ واقعات ریاست کیلی فورنیا میں پیش آئے، حالاں کہ اسلحے تک رسائی کے اعتبار سے اس امریکی ریاست میں سخت ترین قوانین نافذ ہیں۔
ان اعداد و شمار میں تاہم یہ بات واضح طور پر نہیں بتائی گئی کہ ان واقعات میں مجموعی طور پر کتنے افراد زخمی ہوئے۔