امریکا میں اگلے بڑے مالیاتی بحران کی وجہ ملکی طلبہ بنیں گے؟
مقبول ملک سوفی شیمانسکی، نیو یارک
9 جنوری 2019
دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکا میں خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ آیا وہاں اگلے بڑے مالیاتی بحران کی وجہ ملکی طلبہ بنیں گے؟ اس لیے کہ امریکا کی مالیاتی تاریخ میں اس وقت قرضوں کے ’دوسرے سب سے اونچے پہاڑ‘ کی وجہ یہی طلبہ ہیں۔
اشتہار
امریکا میں طلبہ اس وقت مجموعی طور پر اتنے زیادہ مقروض ہیں کہ ملکی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ عام شہریوں کے لیے گھر خریدنے کے لیے حاصل کردہ قرضوں کے بعد امریکا میں سب سے زیادہ قرضے یہی طلبہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے لیتے ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر مالیاتی امور کے کئی ماہرین اب ان خدشات کا اظہار بھی کرنے لگے ہیں کہ آیا مستقبل میں یہی طالب علم امریکا کے لیے ایک نئے ’لیہمن برادرز بحران‘ کی وجہ بن جائیں گے۔
ایک عام طالبہ کی کہانی
امریکی طالبہ ٹونی ونسنٹ نےتین سال قبل پبلک ہیلتھ کے شعبے میں اپنی ماسٹرز ڈگری حاصل کی تھی۔ انہوں نے اس تعلیم کے لیے اتنا زیادہ قرض لیا تھا کہ بعد میں اپنی پہلی تنخواہ وصول کرنے سے بھی قبل ان کے ذمے واجب الادا قرض کی رقم ایک لاکھ ڈالر سے تجاوز کر چکی تھی۔ ٹونی نے پہلے ایک سرکاری یونیورسٹی سے جو بیچلرز ڈگری حاصل کی، اس کے لیے انہیں 15 ہزار ڈالر قرض لینا پڑے تھے۔ پھر مشہور جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے ماسٹرز ڈگری کے لیے انہوں نے مزید 85 ہزار ڈالر قرض لیے۔
اب ٹونی ونسنٹ کی عمر 32 برس ہے، وہ صحت کے شعبے میں ایک عوامی فلاحی تنظیم کے لیے پروگرام مینیجر کی ملازمت کرتی ہیں اور ان کو ملنے والی تنخواہ اتنی ہوتی ہی نہیں کہ وہ اس میں سے قرض کی رقم کی کوئی قسط بھی ادا کر سکیں۔ ٹونی کو باقاعدہ ملازمت کرتے ہوئے تین سال ہو بھی چکے ہیں اور روزگار کی منڈی کی صورت حال یہ ہے کہ وہ ابھی تک اپنے کیریئر کے شروع میں ہی ہیں اور ان کے ذمے 80 ہزار ڈالر کا قرض ابھی تک باقی ہے۔
چوالیس لاکھ مقروض امریکی طلبہ
ٹونی ونسنٹ امریکا میں بہت مقروض طالب علموں میں سے کوئی واحد مثال نہیں ہیں۔ پورے امریکا میں ان کی طرح کے مزید 4.4 ملین دوسرے طلبہ بھی ہیں، جو ابھی اپنی تعلیم مکمل کر رہے ہیں یا کر چکے ہیں، لیکن قرضوں کے بےحال کر دینے والے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ ان طلبہ کے ذمے ریاستی قرضوں کی مجموعی مالیت 1.5 ٹریلین (1500 بلین) ڈالر بنتی ہے۔
اسی صورت حال کا ایک اور تشویش ناک پہلو یہ بھی ہے کہ امریکا پر مجموعی طور پر قرضوں کا جتنا بھی بوجھ ہے، اس میں سے ریاست کی طرف سے طلبہ کو دینے جانے والے تعلیمی قرضوں کا حصہ قریب سات فیصد بنتا ہے۔ اس کے علاوہ انہی کئی ملین امریکی طلبہ کو نجی شعبے کے مالیاتی اداروں اور بینکوں سے حاصل کردہ 64.2 بلین ڈالر کے قرضے بھی واپس کرنا ہیں۔
امریکی مرکزی بینک فیڈرل ریزرو کے گزشتہ برس جون میں جاری کردہ ایک مطالعاتی جائزے کے نتائج کے مطابق 2018ء میں امریکا میں 42 فیصد طلبہ کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے مجبوراﹰ قرضے لینا پڑے تھے۔ ان قرضوں کی مالیت اتنی زیادہ ہے کہ آج ہر امریکی طالب علم اوسطاﹰ 20 ہزار سے لے کر 25 ہزار ڈالر تک کا مقروض ہے۔
یونیورسٹیوں کے طلبہ کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ
قرضوں سے متعلق یہ اعداد و شمار ایسے امریکی طالب علموں کے تھے، جو 2018ء سے چند سال پہلے تک ایسے تعلیمی قرضے حاصل کر چکے تھے۔ لیکن بعد میں اپنی اعلیٰ تعلیم شروع کرنے والے طلبا و طالبات کی حالت اور بھی خراب تھی۔ امریکی یونیورسٹیوں کی امریکن کونسل آف ایجوکیشن یا ACE کہلانے والی ملکی تنظیم کے ڈائریکٹر جان فین اسمتھ کے مطابق جن ملکی طلبہ نے اپنی اعلیٰ تعلیم 2016ء میں شروع کی تھی، آج ان کے ذمے واجب الادا ریاستی قرضوں کی فی کس اوسط مالیت 37 ہزار ڈالر سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔
اے سی ای امریکا میں قریب 1800 یونیورسٹیوں کی نمائندہ ملکی تنظیم ہے۔ جان فین اسمتھ کے بقول آج امریکا میں یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم شہریوں کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ اسی لیے یہ لڑکے اور لڑکیاں سرکاری قرضے بھی زیادہ لیتے ہیں، جو قومی سطح پر ان قرضوں کی مجموعی مالیت میں واضح اضافے کی اہم ترین وجہ بھی ہے۔
بیس ملین رجسٹرڈ یونیورسٹی طلبہ
امریکا میں گزشتہ برس موسم خزاں میں مختلف یونیورسٹیوں میں رجسٹرڈ طلبا و طالبات کی تعداد قریب 20 ملین بنتی تھی۔ یہ تعداد سن 2000ء کے موسم خزاں کے مقابلے میں کم از کم بھی پانچ ملین زیادہ تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا میں مقامی نوجوانوں کے لیے یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم اب ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم ہو چکی ہے، جو ایک رجحان کے طور پر قابل فہم بات ہے۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے 2013ء کے ایک مطالعاتی جائزے کے نتائج کے مطابق 2020ء تک امریکا میں روزگار کی منڈی میں جتنی بھی نئی ملازمتیں نکلیں گی، ان پر بھرتی کے لیے 65 فیصد تک آسامیوں کے لیے آجرین کا تقاضا یہ ہو گا کہ درخواست دہندگان کے پاس کم از کم بھی کسی یونیورسٹی سے حاصل کردہ بیچلرز کی ڈگری ہونا چاہیے۔
پاکستان میں تعلیم کی ضرورت کو کیسے پورا کیا جائے ؟
پاکستان میں پرائیویٹ اسکولز، فلاحی ادارے اور دینی مدارس سرکاری اسکولوں کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پاکستان کے ان 50 ملین بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کیا جاسکے جنہیں اسکول جانا چاہیے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
پاکستان میں 20 ملین بچے اسکول نہیں جاتے
دولاکھ بیس ہزار اسکولوں کے باوجود پاکستان میں 20 ملین بچے اسکول نہیں جاتے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق سن 2010 سے ہر سال حکومت تعلیم کے بجٹ میں سالانہ15 فیصد اضافہ کر رہی ہے لیکن اب بھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
تعلیمی بجٹ 8 ارب ڈالر
اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان اپنے موجودہ بجٹ میں تعلیم پر 2.6 فیصد خرچ کر رہا ہے جو کہ لگ بھگ 8 ارب ڈالر کی رقم بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
مدارس روایتی تعلیمی نظام کا ایک متبادل
دو چھوٹے بچے مری شہر کے ایک مدرسے میں قرآن پڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کے بہت سے غریب بچوں کے لیے مدارس روایتی تعلیمی نظام کا ایک متبادل ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’معیار اور رویے اہم ہیں‘
پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ ملک میں تعلیمی مسائل پیسے کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اچھے اساتذہ کی کمی کی وجہ سے ہے۔ مشعل اسکولز کی بانی زیبا حسین کا کہنا ہے،’’ اسکولوں کی تعداد اہم نہیں ہے بلکہ معیار اور رویے اہم ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/C. Firouz
اساتذہ پر الزام عائد کرنا درست نہیں
تعلیم کے وفاقی ڈائریکٹر طارق مسعود کا کہنا ہے کہ اساتذہ پر الزام عائد کرنا درست نہیں ہے۔ ان کی نظر میں بڑھتی آبادی اور سرمایے کی کمی سرکاری اسکولوں کے لیے سب سے بڑے چیلنج ہیں۔ انہوں نے روئٹرز کو بتایا،’’ کوئی بھی فرد سرکاری نظام کا حصہ بن ہی نہیں سکتا اگر وہ تعلیم یافتہ اور قابل نہ ہو۔ لیکن پرائیویٹ سیکٹر میں اس حوالے سے زیادہ سختی نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/C. Firouz
زیادہ تر مدرسے حکومتی نگرانی کے بغیر چلتے ہیں
پاکستان میں زیادہ تر مدرسے حکومتی نگرانی کے بغیر چلتے ہیں اور کچھ مدرسوں پر انتہائی سخت تشریحات کے حامل اسلام کی ترویج کی جاتی ہے۔ مری کے النادوا مدرسے کے عرفان شیر کا کہنا ہے،’’ اکثر لوگ اس لیے بچوں کو مدرسوں میں داخل کراتے ہیں کیوں کہ وہ انہیں کھانا مہیا کرتے ہیں اور رہنے کے لیے جگہ دیتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/C. Firouz
6 تصاویر1 | 6
کالج کی تعلیم بھی کبھی اتنی مہنگی نہیں تھی
ماہرین اقتصادیات کہتے ہیں کہ امریکا میں طالب علم اپنے لیے قرضے لے کر اپنے مستقبل میں جو سرمایہ کاری کرتے ہیں، وہ اس لیے بھی بہت زیادہ ہو گئی ہے کہ دنیا کی اس سب سے بڑی معیشت میں اب کسی کالج میں تعلیم حاصل کرنا بھی اتنا مہنگا ہو چکا ہے، جتنا پہلے کبھی تھا ہی نہیں۔
اگرچہ ان اخراجات کا انحصار متعلقہ کالج، وہاں حاصل کی جانے والی تعلیم اور اس کے دورانیے پر بھی ہوتا ہے، تاہم بہت سے واقعات میں اس تعلیم کے لیے اخراجات بڑھ کر 1988ء کے مقابلے میں اب چار گنا تک ہو چکے ہیں۔
قرض نہ لوٹانے والا طلبہ
امریکا میں اپنی تعلیم مکمل اور پھر کوئی ملازمت شروع کرنے والے طلبا و طالبات کو اوسطاﹰ ہر ماہ حکومت کو ایسے قرضوں کی قسط کے طور پر 351 ڈالر واپس کرنا ہوتے ہیں۔ قرضوں کی واپسی کی یہ انفرادی مدت اکثر کئی عشروں پر محیط ہوتی ہے۔ جو طلبہ یہ قرضے واپس کرتے بھی ہیں، ان میں سے بھی بہت سے ایک دو سال تک قسطیں ادا کرنے کے بعد مزید ادائیگیوں کے قابل نہیں رہتے یا ان کی آمدنی ایسی مالی اقساط کے لیے بالکل ناکافی ہوتی ہے۔
نیو یارک یونیورسٹی میں مالیاتی امور کی تعلیم دینے اور امریکی طلبہ کے تعلیمی قرضوں سے متعلق معاملات پر تحقیق کرنے والے ماہر کونسٹانٹین یانیلِس کہتے ہیں، ’’ان قریب ساڑھے چار کروڑ امریکی طلبا (44 ملین) میں سے 10 فیصد سے زائد ایسے بھی ہیں، جو کبھی اپنے ذمے یہ قرضے واپس کرتے ہی نہیں۔‘‘
پاکستان کے دو بچوں نے اٹھائی بڑی ذمہ داری
کئی بار بڑے سوچتے رہ جاتے ہیں اور بچے بازی لے جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی کیا کراچی میں رہنے والی شیریں اور ان کے بھائی حسن نے۔ بے گھر بچوں کو تعلیم دینے کی جو ذمہ داری حکومت کی ہے، وہ ان بچوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
ذہین بچے
ساتویں جماعت میں پڑھنے والی شیریں اور دسویں کلاس میں پڑھنے والے ان کے بھائی حسن نے کراچی کی سڑکوں پر رہنے والے بچوں کے لیے اسکول کھولا ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن ہزاروں بچوں کے لیے سڑکیں ہی ان کا گھر ہیں۔
تصویر: DW/A. Saleem
جدوجہد
دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگے ان بچوں کے لیے اسکول جانا کوئی ترجیح کیسے ہو سکتی ہے؟ لیکن شیریں اور حسن اسکول کو ہی ان بچوں تک لے گئے ہیں۔ کراچی کے علاقے كلفٹن میں بے آسرا بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے اور یہ بچے بھی کچھ کرنے کے لیے پرعزم ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/A. Saleem
آغاز کیسے ہوا
اسٹریٹ اسکول کھولنے کا خیال کیسے آیا؟ شیریں بتاتی ہیں، ’’ایک بار میں اس سڑک سے جا رہی تھی کہ مجھے ایک بچی ملی۔ اس نے بھیک لینے سے انکار کر دیا۔ وہ بولی مجھے پڑھنا ہے، کیا آپ یہاں آ کر مجھے پڑھا سکتی ہیں؟‘‘ یہی وہ لمحہ تھا جب شیریں نے ان بچوں کو تعلیم دینے کا سوچا۔
تصویر: DW/A. Saleem
سب کا ساتھ
شیریں بتاتی ہیں کہ انہوں نے ایک بچے کو پڑھانا شروع کیا لیکن کچھ ہی دن میں اور بھی بہت سارے بچے پڑھنے کے لیے وہاں آنے لگے۔ اس کوشش میں شیریں کے بھائی حسن نے ان کا مکمل ساتھ دیا۔ اپنے بچوں کا جذبہ دیکھ کر شیریں اور حسن کے والدین نے اس منصوبے کے لیے مالی وسائل مہیا کرنا شروع کر دیے۔
تصویر: DW/A. Saleem
راشن بھی ملتا ہے
ایسے بہت سے بچوں پر ان کے خاندان بھی مالی انحصار کرتے ہیں۔ ان کے والدین چاہتے ہیں کہ جب وہ گھر واپس جائیں تو کھانا یا پیسے لے کر آئیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اسٹریٹ اسکول میں آنے والے بچوں کو 50 روپے اور ان کے خاندانوں کو راشن بھی دیا جاتا ہے تاکہ وہ بچوں کو پڑھنے سے نہ روکیں۔
تصویر: DW/A. Saleem
نشے سے پڑھائی کی طرف
اسٹریٹ اسکول میں آنے والے کچھ بچے نشے کے عادی بھی ہوتے ہیں۔ ان کے لیے خاص تھراپی کا انتظام کیا جاتا ہے تاکہ وہ نشے کی لت چھوڑ کر تعلیم پر توجہ دیں سکیں۔ اگرچہ یہ کام آسان نہیں، لیکن جب ارادہ پختہ ہو تو کچھ بھی مشکل نہیں ہوتا۔
تصویر: privat
لاکھوں بے گھر
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سڑکوں پر 12 سے 13 لاکھ بچے رہتے ہیں۔ یہ تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے، جس کا سبب غربت، بے روزگاری اور دہشت گردی اور قدرتی آفات کی وجہ سے ہونے والی نقل مکانی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
بڑھتے ہوئے قدم
شیریں بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے ان بچوں کو پڑھانا شروع کیا تھا تو انہیں حروف کی معلومات تو دور بلکہ صحیح طرح پینسل پکڑنا بھی نہیں آتا تھا۔ لیکن اگر آج دیکھا جائے تو یہ پڑھ لکھ سکتے ہیں۔ شیریں چاہتی ہیں کہ وہ ہر بے گھر بچے کو پڑھائیں۔
تصویر: DW/A. Saleem
چل نکلا کارواں
شیریں اور حسن کے اسکول نے ایک سال کے اندر اندر بہت کچھ حاصل کر لیا ہے۔ ان کے اسکول میں اب 75 بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بہت سے نوجوان بھی ان کی اس کوشش میں شامل ہو چکے ہیں۔ اب کچھ غیر سرکاری تنظیمیں بھی ان کی مدد کے لیے آگے آئی ہیں۔ یہ ادارے اس اسٹریٹ اسکول کو سامان مہیا کرتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گلوبل یوتھ آف دی ایئر
بہن بھائی کی ایک اچھی کوشش کی شہرت ملکی سرحدوں سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔ انہیں دسمبر 2016 میں تائیوان میں گلوبل یوتھ آف دی ایئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ شیریں اور حسن کے خاندان کو اپنے ان بچوں پر فخر ہے۔
تصویر: privat
شمع کی صورت
کراچی کے ہر کونے میں ایسا ایک اسکول کھولنے کی شیریں کی خواہش شاید کبھی پوری نہ ہو سکے لیکن ایک سال کے اندر اندر انہوں نے ایک راستہ تو دکھا ہی دیا ہے کہ اگر حکومتیں چاہیں تو اس طرح لاکھوں بے گھر بچوں کی قسمت بدلی جا سکتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
11 تصاویر1 | 11
لیہمن برادرز کی طرح کا ایک شدید مالیاتی بحران
امریکا میں طلبہ کو جاری کیے گئے ایسے قرضوں میں سے 90 فیصد واقعات میں مالیاتی ضامن ریاست ہوتی ہے۔ وہ طلبا و طالبات جو اپنے قرضے واپس نہیں کر سکتے، ان کی مدد حکومت ٹیکس دہندگان کی ادا کردہ رقوم سے کرتی ہے۔
اسی لیے ان تعلیمی قرضوں کی 1500 ارب ڈالر کی مجموعی مالیت کے سبب اور طلبہ کی اوسط مالی حالت کے پیش نظر یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ کیا یہ امریکی طلبہ اپنے ملک میں لیہمن برادرز کی طرح کے ایک نئے شدید مالیاتی بحران کا سبب بن جائیں گے؟
یہ ممکنہ مالیاتی بحران 2008ء کے ان حالات سے زیادہ مختلف شاید نہ ہو، جب ملکی پراپرٹی مارکیٹ میں جیسے ایک بھونچال آ گیا تھا، امریکی سرمایہ کاری بینک لیہمن برادرز دیوالیہ ہو گیا تھا اور کھربوں ڈالر کے نقصانات کا باعث بننے والے ایک تباہ کن مالیاتی بحران نے امریکا اور اس کی وجہ سے عالمی معیشت کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔
تعلیم کہاں کہاں اور کیسے کیسے
تعلیم ایک بنیادی حق ہے اور سیکھنے کا عمل پوری دنیا میں جاری ہے لیکن بچے کن حالات میں تعلیم حاصل کرتے ہیں؟ یہ عمل پوری دنیا میں بڑا متنوع ہے۔ دنیا کے مختلف اسکولوں کا ایک چھوٹا سا سفر۔
تصویر: Reuters/B. Kelly
افغانستان
مہاجرہ ارمانی افغانستان کے شمالی شہر جلال آباد میں بچیوں کو تعلیم دے رہی ہیں۔ مشکل اور نامساعد حالات کے باوجود اب افغانستان میں اسکول جانے والی چھوٹی عمر کی بچیوں کی تعداد چوہتر فیصد ہو چکی ہے۔
تصویر: Reuters/Parwiz
جاپان
ٹوکیو کے ایک اسکول میں بچے دوپہر کا کھانا کھا رہے ہیں۔ جاپانی نظام تعلیم کا شمار دنیا کے بہترین نظاموں میں ہوتا ہے۔ جاپانی اسکول سسٹم دنیا کے لیے رول ماڈل بن چکا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
برازیل
برازیل کے ان بچوں کا اسکول مسلسل ہلتا رہتا ہے۔ برازیلی دریاؤں پر بنائے جانے والے ایسے سرکاری اسکولوں کا تعلیمی معیار بہت اچھا نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں کا امیر یا متوسط طبقہ اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں بھیجتا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Kelly
امریکا
امریکا کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے لیکن تعلیمی میدان میں امریکا بھی عدم مساوات کا شکار ہے۔ اسکولوں کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ لاطینی امریکی نسل کے بچوں اور سیاہ فاموں کی نسبت سفید فام بچوں کو اچھی تعلیمی سہولیات میسر ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Young
ویتنام
تیسری جماعت کے یہ بچے بغیر بجلی اور بغیر کتابوں کے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ استانی بچوں کو مقامی زبان ’ہمونگ‘ سکھا رہی ہیں۔ لیکن خراب تعلیمی حالات کے باوجود ویتنام کے طالب علم بین الاقوامی ’پیزا سروے‘ میں اپنا مقام بہتر بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kham
برطانیہ
انگلینڈ میں اسکول یونیفارم پہننے کی ایک طویل روایت ہے۔ جرمنی اور کئی دیگر یورپی ملکوں کے برعکس برطانیہ میں طلبہ کا ایک جیسا لباس ضروری ہے۔ یہ روایت کب اور کہاں سے چلی، واضح نہیں ہے اور نہ ہی ملک میں ایسا کوئی قانون ہے، جو طلبا و طالبات کی یونیفارم سے متعلق وضاحت کرتا ہو۔
تصویر: Reuters/S. Plunkett
پاکستان
پاکستان میں نجی اسکولوں کا معیارِ تعلیم سرکاری اسکولوں سے بہتر سمجھا جاتا ہے لیکن ایسے غریب شہری بھی موجود ہیں، جو اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھی بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اسلام آباد کے ماسٹر ایوب کھلے آسمان تلے ایسے ہی غریب اور نادار بچوں کو مفت تعلیم دیتے ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
مراکش
مراکش کے دارالحکومت رباط میں پرائمری اسکول کے کمرے اکثر رنگین ہوتے ہیں۔ ابتدائی سالوں میں بچوں کے اسکول جانے کی شرح بہت اچھی ہے اور تقریباﹰ بانوے فیصد بچے بچیاں اسکول جاتے ہیں۔ پندرہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ان کی تعداد نصف رہ جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/Y. Boudlal
کینیا
اس افریقی ملک میں سن دو ہزار تین سے تمام بچے بغیر کوئی فیس ادا کیے پرائمری اسکول جا سکتے ہیں۔ تاہم اس نئے قانون کے بعد ضروری سرمایہ کاری نہیں کی گئی اور اب اسکولوں میں سہولیات کم اور بچے زیادہ ہیں۔
تصویر: Reuters/N. Khamis
ملائشیا
اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے عالمی پروگرام ’پیزا‘ کے مطابق ملائشیا کے اسٹوڈنٹس اپنے آپ خوش قسمت ترین قرار دیتے ہیں۔ اس ملک کی ساٹھ فیصد آبادی مسلمان ہے۔ یہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد مدرسوں میں بھی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Harris
یوکرائن
اس ملک میں بچوں کو پہلی کلاس میں ہی کوئی نہ کوئی غیر ملکی زبان سکھانا شروع کر دی جاتی ہے جبکہ کئی اسکولوں میں پانچویں کلاس میں دوسری غیر ملکی زبان سیکھنا بھی لازمی ہوتی ہے۔
تصویر: Reuters/G. Garanich
چلی
لگتا تو نہیں لیکن یہ پہلی کلاس کے طلبا و طالبات ہیں۔ چلی کے دارالحکومت میں یہ خواتین و حضرات شام کی کلاسیں لیتے ہیں۔ چلی میں تعلیمی نظام تقریباﹰ مکمل طور پر نجی شعبے کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں غریب گھرانے اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھجوا سکتے۔