امریکا میں ایک لاکھ تارکین وطن بچے زیر حراست، اقوام متحدہ
19 نومبر 2019
اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق امریکا میں ایک لاکھ سے زائد تارکین وطن بچے سرکاری حراستی مراکز میں بند ہیں۔ عالمی ادارے کے ایک اعلیٰ اہلکار نے ایسے بچوں کے جبراﹰ ان کے خاندانوں سے علیحدہ رکھے جانے کی مذمت کی ہے۔
اشتہار
اس رپورٹ کے مطابق امریکا میں حکام کی حراست میں اور والدین اور دیگر اہل خانہ سے دور رکھے جانے والے ان کم عمر افراد کی حراست کا تعلق کسی نہ کسی طور ترک وطن کے مسئلے سے ہے۔ بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ماہر قانون اور اقوام متحدہ کے محقق مانفریڈ نوواک نے اس رپورٹ کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے بتایا کہ پوری دنیا میں اس وقت کم از کم بھی تین لاکھ تیس ہزار بچے ایسے ہیں، جو ترک وطن سے متعلقہ معاملات کے باعث مختلف ممالک میں زیر حراست ہیں۔
لیکن انتہائی تشویش کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں ایسے بچوں میں سے تقریباﹰ ایک تہائی صرف امریکا میں زیر حراست ہیں۔ مانفریڈ نوواک اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مرکزی مصنف بھی ہیں، جس کا عنوان ہے: 'آزادی سے محروم کر دیے گئے بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کا عالمی جائزہ‘۔
نوواک اور ان کے ساتھی محققین کے مطابق امریکا میں اس وقت ایسے کم عمر تارکین وطن کی تعداد ایک لاکھ تین ہزار کے قریب ہے، جو حراستی مراکز میں بند ہیں۔ ان میں ایسے بچے بھی شامل ہیں، جو امریکا پہنچے ہی اپنے والدین کے بغیر تھے اور ان میں وہ کم بچے بھی ہیں، جو یا تو اپنے اپنے اہل خانہ کے ساتھ حراستی مراکز میں بند ہیں یا جنہیں حکام نے زبردستی ان کے والدین سے علیحدہ رکھا ہوا ہے۔
اعداد و شمار 'انتہائی قابل اعتماد‘
اس رپورٹ کی تیاری کے دوران مانفریڈ نوواک کی ٹیم نے جب امریکی حکام سے رابطہ کیا، تو انہوں نے اس بارے میں کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔ محققین کی اس ٹیم نے کہا ہے کہ ان کی طرف سے پیش کردہ یہ اعداد و شمار مختلف ذرائع سے حاصل کر کے جمع کیے گئے اور 'انتہائی قابل اعتماد‘ ہیں۔
نوواک نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو مزید بتایا، ''یہ تعداد، ایک لاکھ تین ہزار، بہت ہی محتاط اندازوں کا نتیجہ ہے۔‘‘ ان کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
نوواک نے یہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں صحافیوں کو بتایا، ''ترک وطن سے متعلقہ معاملات میں بچوں کو حراستی مراکز میں رکھنا کبھی بھی ایسے بچوں کے مفاد میں نہیں ہوتا۔ اور حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ایسا اس وقت بھی کیا جاتا ہے، جس دیگر متبادل راستے موجود ہوتے ہیں۔‘‘
’میکسیکو باڑ یا ٹرمپ کی دیوار‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو سے ملنے والی امریکی سرحد پر ایک دیوار تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ ہو گا۔ کئی سالوں سے اس سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے باڑ لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/J. L. Gonzalez
ٹرمپ کا تجربہ
اپنی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا، ’’اپنی جنوبی سرحد پر میں ایک دیوار تعمیر کرنا چاہتا ہوں اور کوئی بھی مجھ سے بہتر دیواریں نہیں بنا سکتا۔ میں اس دیوار کی تعمیر کے اخراجات میکسیکو سے حاصل کروں گا۔‘‘ بہرحال ابھی تک انہوں نے اونچی عمارتین اور ہوٹل ہی بنائے ہیں۔ ٹرمپ کے تارکین وطن سے متعلق دس نکاتی منصوبے میں اس دیوار کی تعمیر کو اوّلین ترجیح حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Torres
کام جاری ہے
امریکا اور میکسیکو کے مابین سرحد تقریباً تین ہزار دو سو کلومیٹر طویل ہے۔ ان میں سے گیارہ سو کلومیٹر پر پہلے ہی باڑ لگائی جا چکی ہے۔ یہ سرحد چار امریکی اور میکسیکو کی چھ ریاستوں کے درمیان سے گزرتی ہے۔ دشوار گزار راستوں کی وجہ سے ریاست نیو میکسیکو میں اس باڑ کی تعمیر کا کام ادھورا ہی رہ گیا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
حالات کے ہاتھوں مجبور
غیر قانونی طریقوں سے میکسیکو سے امریکا میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سالانہ بنتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق میکسیکو سے ہی ہوتا ہے۔ میکسیکو کے شہریوں کو بہت ہی کم امریکی ویزا جاری کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ ایک بہتر زندگی کا خواب لے کر امریکا آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Zepeda
باڑ کی وجہ سے تقسیم
یہ خاندان باڑ کی وجہ سے تقسیم ہیں تاہم ایک دوسرے مصافحہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے ان لوگوں کے جلد ہی ایک دوسرے سے ملنے کے امکانات بھی تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/J. West
تعصب
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا،’’میکسیکو اپنے اُن شہریوں کو ادھر بھیجتا ہے، جو کسی کام کے نہیں اور نا ہی ان میں کوئی قابلیت ہے۔ یہاں مسائل کا شکار میکسیکن ہی آتے ہیں، جو منشیات فروش اور جرائم پیشہ ہونے کے علاوہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔‘‘ ٹرمپ ایسے تمام جرائم پیشہ افراد کو ملک بدر کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Bull
ریگستان، سرحد اور واپسی
میکسیکو کے بہت سے شہریوں کے لیے امریکا کا سفر اس باڑ پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ کچھ کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے جبکہ کچھ اس سرحد کو پار کرنے کی قیمت اپنی جان سے چکاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ سرحدی محافظین کی جانب سے میکسیکو میں فائرنگ کے الزامات عائد کرتے ہیں۔ ایک ایسے واقعے میں میکسیکو کے چھ ایسے شہری ہلاک ہو گئے تھے، جو سرحد پار نہیں کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: Reuters/D.A. Garcia
اپنا محافظ خود
یہ ایک امریکی کاشتکار جم چلٹن ہے، جو اس بندوق کے ساتھ اپنی زمین کی نگرانی کر رہا ہے۔ اس کا دو لاکھ مربع میٹر پر محیط یہ فارم میکسیکو کی سرحد کے پاس جنوب مشرقی ایریزونا میں واقع ہے۔ یہاں پر صرف یہ خار دار تار ہی لگی ہے۔ جم چلٹن خود ہی اپنا محافظ ہے اور اس دوران اسے کئی مرتبہ اپنی یہ شاٹ گن اٹھانی پڑی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F.J. Brown
عجب انداز میں اختتام
عام بول چال میں اس تقریباً ساڑھے بائیس کلومیٹر طویل باڑ کو ’تورتیا وال‘ کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔ ’تورتیا‘ میکسیکو کی ایک مخصوص قسم کی ایک روٹی کو کہا جاتا ہے۔ یہ باڑ سان ڈیاگو (کیلی فورنیا) اور بحرالکاہل کے درمیان نصب کی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Zepeda
8 تصاویر1 | 8
ٹرمپ انتظامیہ کی مذمت
اس رپورٹ کے مطابق امریکا میں زیر حراست نابالغ تارکین وطن کی تعداد دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ شماریاتی حوالے سے امریکا میں مجموعی طور پر ہر ایک لاکھ بچوں میں سے 60 ایسے ہوتے ہیں، جنہیں ترک وطن اور ساتھ ہی دیگر معاملات کی وجہ سے حراست میں رکھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس کینیڈا میں یہی تناسب 15 بچے فی ایک لاکھ بنتا ہے جبکہ مغربی یورپ میں یہی شرح صرف پانچ بچے فی ایک لاکھ بنتی ہے۔
عالمی ادارے کے ماہرین کے مطابق امریکا آج بھی دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جس نے اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق سے متعلق کنوینشن پر دستخط نہیں کیے۔ یہ عالمی کنوینشن 1989ء میں منظور کیا گیا تھا۔
کنوینشن کے تحت بچوں کی حراست ممنوع
مانفریڈ نوواک کے مطابق اقوام متحدہ کا بچوں کے حقوق کا عالمی کنوینشن نابالغ افراد، خاص کر چھوٹے بچوں کو جبراﹰ ان کے والدین سے علیحدہ رکھنے کی ممانعت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ''میں تو اسے ایسے بچوں اور ان کے والدین دونوں کے ساتھ غیر انسانی رویے کا نام ہی دے سکتا ہوں۔‘‘
یونانی جزیرے لیسبوس کا موریا کیمپ، مہاجرین پر کیا گزر رہی ہے
لیسبوس کے یونانی جزیرے پر پھنسے ہوئے تارکین وطن کو حالات مزید خراب ہونے کی توقع ہے۔ انسانی بنیادوں پر سہولیات مہیا کرنے والی کئی غیر سرکاری تنظیمیں یا تو اپنا کام سمیٹ کر جانے کی تیاری میں ہیں یا پہلے ہی رخصت ہو چکی ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
ایجئین میں پھنسے مہاجرین
مہاجرین کی مد میں نجی فلاحی تنظیموں کو یورپی یونین کی جانب سے دی جانے والی فنڈنگ رواں برس اگست میں ختم ہو گئی تھی۔ تب سے یونانی حکومت ہی جزائر پر مقیم پناہ گزینوں کی تنہا دیکھ بھال کر رہی ہے۔ تاہم نہ تو ان مہاجرین کی منتقلی کا کوئی واضح پلان ہے اور نہ ہی اب یہاں مہاجرین کو فراہم کی جانے والی سہولیات میں کوئی تسلسل رہ گیا ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
نہ یہاں نہ وہاں
موریا کا مہاجر کیمپ اور تارکین وطن کے لیے بنائے گئے دوسرے استقبالیہ مراکز میں اب مہاجرین کے نئے گروپوں کو سنبھالنے کی استطاعت نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تناؤ کی کیفیت بڑھ رہی ہےاور انفرادی سطح پر ہونے والے جھگڑے جلد ہی نسلی گروپوں کے درمیان سنجیدہ نوعیت کی لڑائی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
حفظان صحت کی سہولتیں
موریا کے باہر عارضی نوعیت کے غسل خانے کے باہر استعمال شدہ شیمپو اور پانی کی بوتلوں کا ڈھیر پڑا ہے۔ موریا مہاجر کیمپ میں حفظان صحت کی سہولتوں کے فقدان کے باعث بہت سے لوگوں نے صفائی ستھرائی کے لیے دوسرے امکانات تلاش کرنے شروع کر دیے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
فیصلے کا انتظار
اریٹیریا کے تارک وطن امان نے اپنے خیمے میں چائے یا پانی کا نہ پوچھنے پر معذرت کی ۔ وہ تین ماہ سے اپنی پناہ کی درخواست پر فیصلے کا منتظر ہے۔ امان کا کہنا ہے کہ موریا کیمپ کے اندر کافی زیادہ مسائل ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
’ہم انسان ہیں‘
اس تصویر میں ایک افغان مہاجر موریا مہاجر کیمپ میں ابتر رہائش کی صورتحال کے خلاف احتجاج کے لیے پلے کارڈ بنا رہا ہے۔ احتجاج کرنے والے بیشتر پناہ گزین قریب ایک سال سے لیسبوس پر ہیں اور اپنی درخواستوں پر فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ معلومات کی کمی، ابتر رہائشی صورت حال اور افغانستان واپس بھیجے جانے کا خوف ان تارکین وطن کو مستقل وسوسوں میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
یونان بھی مجبور
لیسبوس کے افغان مہاجرین مجوزہ احتجاج پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ مہاجرین کے بحران کی وجہ سے لیسبوس کے جزیرے پر سیاحوں کی آمد میں سن 2015 کی نسبت قریب 75 فیصد کم ہوئی ہے۔ یونان میں جاری اقتصادی بحران نے بھی جزیرے کے حالات پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
ہر روز نئے تارکین وطن کی آمد
سن 2015 سے ہی مہاجرین پر لازم ہے کہ وہ اپنی پناہ کی درخواستوں پر حتمی فیصلے تک جزیرے پر رہیں گے۔ متعدد درخواستوں کو روکنے اور اپیل کے طویل عمل کے سبب تارکین وطن کی ایک مختصر تعداد کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
7 تصاویر1 | 7
نوواک کے بقول امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی اس لیے قابل مذمت ہے کہ وہ امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر ایسے تارکین وطن بچوں کو ان کے والدین سے جبراﹰ علیحدہ کر دینے اور پھر حراست میں رکھنے کے ساتھ اس عالمی کنوینشن کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ واشنگٹن میں امریکی انتظامیہ نے اس رپورٹ کے اجراء کے بعد بھی اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
عراق اور شام میں 29 ہزار بچے زیر حراست
جہاں تک دیگر ممالک میں نابالغ تارکین وطن بچوں کے زیر حراست رکھے جانے کا تعلق ہے، تو ایسا سب سے زیادہ مشرق وسطیٰ میں شام اور عراق جیسی ریاستوں میں کیا جا رہا ہے۔
عالمی ادارے کے ماہرین کے مطابق ان دونوں عرب ممالک میں زیر حراست تارکین وطن بچوں کی تعداد کم از کم بھی 29 ہزار بنتی ہے، جن کی اکثریت کا تعلق دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے جنگجوؤں کے خاندانوں سے ہے۔ ایسے بچوں میں کئی یورپی ممالک کے بچے بھی شامل ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ تعداد فرانسیسی شہریوں کی ہے۔
م م / ع ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
سمندر کی آغوش میں موت تارکینِ وطن کی منتظر
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔