امریکی محکمہء انصاف نے قتل کے جرم میں قید ایک مجرمہ کو سزائے موت دینے کا اعلان کیا ہے۔ موت کی سزا پر عمل درآمد زہریلے ٹیکے کی مدد سے کیا جائے گا۔
اشتہار
سات دہائیوں میں پہلی بار بعد جس خاتون مجرمہ کو موت کی سزا دی جائے گی، اس کا نام لیزا مونٹگمری ہے۔ اس مجرمہ پر 2004 میں ایک حاملہ خاتون کو قتل کرنے کا الزام ثابت ہوا تھا۔ اس خاتون کو عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائے موت رواں برس آٹھ دسمبر کو دی جائے گی۔
لیزا مونٹگمری نے سن 2004 میں حاملہ خاتون بوبی جو سٹینٹ کو گلا گھونٹ کر ہلاک کیا تھا۔ اس قتل کی واردات کو انتہائی بھیانک قرار دیا گیا تھا۔ مقتولہ آٹھ ماہ کی حاملہ تھی۔ قاتلہ مونٹگمری نے کچن میں استعمال ہونے والی چھری سے مقتولہ کے رحم میں سے بچہ نکال کر اپنے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے لے گئی کہ وہ اس کا اپنا بچہ تھا۔
سن 2007 میں ایک امریکی ڈسٹرکٹ عدالت نے استغاثہ کے دلائل اور شواہد کی بنیاد پر قاتلہ کو قتل اور اغوا کے جرائم سرزد کرنے پر سزائے موت کی سزا سنائی۔ وکلائے صفائی نے عدالت اور جیوری کے سامنے یہ ثابت کرنے کی بہت کوشش کی واردات کے وقت مجرمہ شدید واہمے کے نفسیاتی عارضے کے اثر میں تھی لیکن اس دلیل کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
لیزا مونٹگمری کی وکیل کیلی ہنری کا کہنا ہے کہ مجرمہ اپنے جرم کی ذمہ داری ضرور قبول کر چکی ہے لیکن وہ ذہنی طور پر بیمار ہے اور اس بنیاد پر اس کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا کہ مجرمہ کا بچپن خاصا تکلیف دہ رہا تھا اور یہ بھی اس کی بیماری کو شدید تر کرنے کی وجہ رہی ہے۔ انہوں نے اپنی مؤکلہ کو دسمبر میں سزائے موت پر دینے کے اعلان کو غیر منصفانہ فعل قرار دیا۔ خاتون وکیل کے مطابق موت کی سزا کو ویسے بھی موقوف کر دینا چاہیے کیونکہ مجرمہ کے پاس رہائی کا کوئی موقع نہیں اور وہ تمام عمر جیل میں ہی رہے گی۔
آخری مرتبہ سن 1953 میں بونی ہیڈی نامی مجرمہ کو امریکا میں موت کی سزا دی دی گئی تھی۔ ہیڈی کو سزائے موت زہریلی گیس کے چیمبر میں دی گئی تھی۔ اس طرح سڑسٹھ برس بعد ایک اور خاتون کی سزائے موت پر ڈیڑھ ماہ بعد عمل کیا جائے گا۔ امریکا میں موت کی سزا پر عمل درآمد کا سلسلہ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں شروع ہوا ہے۔
سب سے زیادہ سزائے موت کن ممالک میں؟
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2017 کے دوران عالمی سطح پر قریب ایک ہزار افراد کو سنائی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔ سزائے موت کے فیصلوں اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے کون سے ملک سرفہرست رہے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۱۔ چین
چین میں سزائے موت سے متعلق اعداد و شمار ریاستی سطح پر راز میں رکھے جاتے ہیں۔ تاہم ایمنسٹی کے مطابق سن 2017 میں بھی چین میں ہزاروں افراد کی موت کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
۲۔ ایران
ایران میں ہر برس سینکڑوں افراد کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے، جن میں سے زیادہ تر افراد قتل یا منشیات فروشی کے مجرم ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس ایران میں پانچ سو سے زائد افراد سزائے موت کے بعد جان سے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل تاہم یہ نہیں جان پائی کہ اس برس کتنے ایرانیوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/epa/S. Lecocq
۳۔ سعودی عرب
ایران کے حریف ملک سعودی عرب اس حوالے سے تیسرے نمبر پر رہا۔ سن 2017 کے دوران سعودی عرب نے 146 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا۔
تصویر: Nureldine/AFP/Getty Images
۴۔ عراق
چوتھے نمبر پر مشرق وسطیٰ ہی کا ملک عراق رہا جہاں گزشتہ برس سوا سو سے زائد افراد کو موت کی سزا دے دی گئی۔ عراق میں ایسے زیادہ تر افراد کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت موت کی سزا دی گئی تھی۔ ان کے علاوہ 65 افراد کو عدالتوں نے موت کی سزا بھی سنائی، جن پر سال کے اختتام تک عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
۵۔ پاکستان
پاکستان نے گزشتہ برس ساٹھ سے زائد افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہے۔ سن 2017 میں پاکستانی عدالتوں نے دو سو سے زائد افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ سات ہزار سے زائد افراد کے خلاف ایسے مقدمات عدالتوں میں چل رہے تھے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۶۔ مصر
مصر میں اس عرصے میں پینتیس سے زیادہ افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: Reuters
۷ صومالیہ
ایمنسٹی کے مطابق صومالیہ میں گزشتہ برس عدالتوں کی جانب سے سنائے گئے سزائے موت کے فیصلوں میں تو کمی آئی لیکن اس کے ساتھ سزائے موت پر عمل درآمد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 24 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/epa/J. Jalali
۸۔ امریکا
آٹھویں نمبر پر امریکا رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ ریاستوں میں 23 افراد کو سزائے موت دے دی گئی، جب کہ پندرہ ریاستوں میں عدالتوں نے 41 افراد کو سزائے موت دینے کے فیصلے سنائے۔ امریکا میں اس دوران سزائے موت کے زیر سماعت مقدموں کی تعداد ستائیس سو سے زائد رہی۔
تصویر: imago/blickwinkel
۹۔ اردن
مشرق وسطیٰ ہی کے ایک اور ملک اردن نے بھی گزشتہ برس پندرہ افراد کی سزائے موت کے فیصلوں پر عمل درآمد کر دیا۔ اس دوران مزید دس افراد کو موت کی سزا سنائی گئی جب کہ دس سے زائد افراد کو ایسے مقدموں کا سامنا رہا، جن میں ممکنہ طور پر سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
تصویر: vkara - Fotolia.com
۱۰۔ سنگاپور
دسویں نمبر پر سنگاپور رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ افراد موت کی سزا کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سن 2017 میں سنگاپور کی عدالتوں نے پندرہ افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ اس دوران ایسے چالیس سے زائد مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Tsuno
10 تصاویر1 | 10
مونٹگمری کو سزائے موت امریکی ریاست انڈیانا میں واقع وفاقی حکومت کی انتہائی سخت نگرانی والی 'ٹیرا ہوٹ‘ جیل میں دی جائے گی۔ یہ جیل اسی نام کے ایک چھوٹے سے قصبے میں تعمیر کی گئی ہے۔ اس جیل میں سزائے موت پانے والے مجرموں کو اس لیے رکھا جاتا ہے کہ وہاں خصوصی ڈیتھ چیمبر بنایا گیا ہے۔ کئی مجرموں کو موت کی سزا دینے کے لیے دوسری جیلوں سی بھی یہاں منتقل کیا جاتا ہے۔
امریکا میں اسی سال جولائی سے اب تک چھ افراد کو موت کی سزا دی جا چکی ہے۔ خاتون مجرمہ کی سزائے موت سے قبل دو دوسرے مجرموں کی دی گئی موت کی سزا پر عمل کیا جائے گا۔ ان کی تمام اپیلیں مسترد ہو چکی ہیں۔ اس طرح لیزا مونٹگمری جولائی سے سزائے موت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہونے پر نوویں مجرمہ ہوں گی۔