امریکی عوام جو سی فوڈ شب کے کھانے میں استعمال کرتے ہیں، وہ ممکنہ طور پر شمالی کوریا کی حکومت کو سرمایے کی فراہمی کا باعث بنتا ہے۔ پیونگ یانگ حکومت جوہری پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے بڑے حکومتی اخراجات کر رہی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پیونگ یانگ حکومت جو جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ہے اور اس کے لیے ملکی وسائل کا بڑا حصہ خرچ کر رہی ہے، غالباﹰ امریکا کو برآمد کیے جانے والے سی فوڈ سے بھی سرمایہ حاصل کر رہی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا سے برآمد کی جانے والی مچھلیاں اور دیگر سی فوڈ ممکنہ طور پر وہاں جبری مشقت کو بھی شہ دینے کے مترادف ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب شمالی کوریا پر شدید ترین عالمی پابندیاں نافذ ہیں اور اس ملک کی تقریباﹰ تمام تر برآمدات ممنوع قرار دی جا چکی ہیں، یہ ملک اپنی شہریوں کو بہ طور مزدور دنیا بھر میں بھیج کر دو سو ملین سے پانچ سو ملین ڈالر سالانہ سرمایہ حاصل کر رہا ہے۔
پشاور: دہشت گردی میں کمی سے فوڈ انڈسٹری اور سیاحت میں ترقی
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے لیے 2015ء کے مقابلے میں 2016ء بہتر سال ثابت ہوا۔ گزشتہ برس پشاور میں دہشت گردی میں نمایاں کمی ہوئی تو تجارتی مراکز، فوڈ انڈسٹری اور سیاحت کے شعبوں میں بھی غیر معمولی ترقی دیکھنے میں آئی۔
تصویر: Danish Baber
پشاور میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری
پشاور گزشتہ قریب دو دہائیوں سے دہشت گردی کی وجہ سے کافی متاثر ہوتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے شہروں کے مقابلے میں یہ شہر ہر میدان میں پیچھے رہ گیا تھا۔ اب لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ اب پشاور میں ملکی اداروں کے علاوہ بین الاقوامی ادارے بھی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
تصویر: Danish Baber
دہشت گردانہ حملوں میں واضح کمی
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2016ء میں ملک بھر میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں دہشت گردی کے بہت کم واقعات پیش آئے، جس کی وجہ شمال مغربی قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن ضرب عضب کو قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Danish Baber
حالات میں بہتری کا مثبت کاروباری نتیجہ
حالات بہتر ہوتے ہی اپنی خوش خوراکی اور مہمان نوازی کی وجہ سے مشہور پشاور کے شہریوں کی دلچسپی کے پیش نظر مقامی مارکیٹوں میں ملکی اور بین الاقوامی فوڈ کمپنیوں نے اپنی فرنچائزڈ شاخیں کھول دیں۔
تصویر: Danish Baber
’ٹرکش ڈونر ہاؤس‘ بھی پشاور میں
ترکی کے مشہور ’ٹرکش ڈونر ہاؤس‘ کو دسمبر 2016ء میں پشاور میں متعارف کرانے والے احسان اللہ کہتے ہیں کہ ایک ماہ کی قلیل مدت میں ان کے فوڈ ہاؤس میں ہر روز لوگوں کا ہجوم لگا رہنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شہر کے شدت پسندی سے متاثرہ عوام تفریح چاہتے ہیں۔
تصویر: Danish Baber
’چائے خانہ‘ میں ستّر اقسام کی چائے
اس تصویر میں اسد علی نامی شہری اپنے دوستوں کے ساتھ ’چائے خانہ‘ میں بیٹھے ہیں۔ ان کے بقول پشاور میں ’چائے خانہ‘ جیسی جگہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ صرف ایک ماہ تک پہلے صارفین ’ستّر اقسام کی چائے کے لیے مشہور‘ اس کیفے کے ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لیے اسلام آباد تک کا سفر کرتے تھے لیکن اب انہیں یہ سہولت پشاور ہی میں دستیاب ہے۔
تصویر: Danish Baber
کراچی کا فوڈ برانڈ تئیس ملکوں میں
’باربی کیو ٹونائٹ‘ کے نام سے مشہور کراچی کے اس فوڈ برانڈ کی پاکستان کےعلاوہ بھی بائیس ممالک میں شاخیں ہیں۔ کشیدہ حالات کی وجہ سے پشاور میں ’باربی کیو ٹونائٹ‘ کا آغاز کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔ اس برانڈ کی پشاور فرنچائز کے مالک کے مطابق خیبر پختونخوا میں اشیائے خوراک اور ریستورانوں کے شعبوں میں محفوظ اور منافع بخش سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Danish Baber
نئے ریستوراں ایک منافع بخش کاروبار
پشاور کے لوگوں عام طور پر دیسی کھانوں مثلاﹰ چپلی کباب اور مٹن کڑاہی کے دلدادہ تصور کیے جاتے ہیں تاہم مختلف فاسٹ فوڈ ریستورانوں پر لوگوں کے ہجوم اور آئے دن نئے مشہور ریستورانوں کا کھلنا اس امر کے اشارے ہیں کہ مقامی اور علاقائی طور پر فاسٹ فوڈ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔
تصویر: Danish Baber
سولہ پاکستانی شہروں میں چوالیس میکڈونلڈز
امریکی فاسٹ فوڈ چین میکڈونلڈز کا دنیا بھر میں ایک بہت بڑا کاروباری نیٹ ورک ہے۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد سمیت پاکستان کے سولہ بڑے شہروں میں اس ریستوران کی چوالیس فرنچائزڈ شاخیں قائم ہیں۔ میکڈونلڈز نے گزشتہ برس پشاور میں اپنے قدم جمائے اور بہت تھوڑے عرصے میں ریکارڈ کاروبار کیا۔ عوامی دلچسپی کے پیش نظر اس سال پشاور میں میکڈونلڈز کی ایک اور شاخ بھی کھولی جا رہی ہے۔
تصویر: Danish Baber
’نان سنس‘ جو کوئی ’نان سنس‘ نہیں
گوکہ ٹرک آرٹ سے سجایا گیا ’نان سنس‘ پشاور کا ایک مقامی ریستوراں خیال کیا جاتا ہے تام دلکش بناوٹ اور مختلف فوڈ آئٹمز کے عجیب و غریب اور مزاحیہ نام لوگوں کو اس ریستوراں کی طرف راغب کرتے ہیں۔ اس چھوٹے سے ریستوراں میں آ کر مہمان کچھ دیر کے لیے اپنی ذہنی پریشانیاں بھول جاتے ہیں۔
تصویر: Danish Baber
آسٹریلین ’کون ہیڈز‘ بھی اب پشاور میں
آسٹریلوی برانڈ ’کون ہیڈز‘ میں آئے ہوئے نعمان خان کہتے ہیں کہ کم ہی عرصے میں وہ پشاور میں ایک غیر معمولی تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ ’’اب ہم پشاور میں رات گئے تک ملکی اور بین الاقوامی ریستورانوں میں بیٹھ کر اپنی مرضی کے کھانے کھا سکتے ہیں۔ پہلے نہ تو حالات اچھے تھے اور نہ ہی ہمارے پاس انتخاب کا امکان اتنا زیادہ تھا۔‘‘
تصویر: Danish Baber
آسٹریلوی کافی ہاؤس ’گلوریا جینز‘
گلوریا جینز کے نام سے مشہور آسٹریلین کافی شاپ کی خیبر پختونخوا آمد کے بارے میں اس کمپنی کی ایک فرنچائز کے مالک احسان اللہ کا کہنا ہےکہ پشاور کے لوگ عرصہ دراز سے گھروں میں محصور تھے اور ان کے لیے روایتی کھانوں سے ہٹ کر ایک نئے ذائقے کی ضرورت تھی، جو گلوریا جینز نے ان کو فراہم کیا۔ ’’لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔ اس لیے ہم بھی ابھی تک یہاں ہیں۔‘‘
تصویر: Danish Baber
سرمایہ کاری کے لیے پرکشش معاہدے
پشاور میں ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عربی کے بقول صوبائی دارالحکومت میں بین الاقوامی فوڈ انڈسٹری کی طرف سے سرمایہ کاری اس خطے میں امن و امان کی بڑی نشانی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صوبائی انتظامیہ کی طرف سے اچھے معاہدوں اور سرمایہ کاری کے بہتر ماحول کی وجہ سے دنیا بھر سے لوگ اب پشاور کا رخ کر رہے ہیں۔
تصویر: Danish Baber
’باب پشاور‘ جو اب ’سیلفی برج‘ بن چکا ہے
سال 2016ء میں انتہائی تیز رفتاری سے چھ ماہ کے قلیل عرصے میں مکمل کیے گئے اس کثیر المنزلہ پل کو ’باب پشاور‘ کا نام دیا گیا ہے۔ کشیدہ حالات کے ستائے خیبر پختونخوا کے عوام اس پل کو بھی کسی تفریحی مقام سے کم نہیں سمجھتے۔ دن رات وہاں لوگوں کے رش اور تصاویر بنانے کے شوق کی وجہ سے اس پل کو مقامی لوگ ’سیلفی برِج‘ کہنے لگے ہیں۔
تصویر: Danish Baber
پشاور میں صفائی کا سال
ماضی میں پھولوں کا شہر کہلانے والے پشاور کو ایک بار پھر پھولوں کا شہر بنانے کے لیے صوبائی حکومت نے سال 2017ء کو صفائی کا سال قرار دیا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کی طرح پشاور کو گندگی سے بھی پاک کر دینے کے لیے ’گلونہ پیخور‘ کے نام سے شہر کی صفائی کی مہم شروع کی گئی ہے، جس میں شہری بڑی تعداد میں حصہ لے رہے ہیں۔
تصویر: Danish Baber
14 تصاویر1 | 14
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ سرمایہ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے میں کلیدی نوعیت کا حاصل ہو سکتا ہے۔ جنوبی کوریا کے مطابق پیونگ یانگ حکومت اس مد میں قریب ایک ارب ڈالر خرچ کی رہی ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کےمطابق مزدوروں کے علاوہ علاوہ شمالی کوریا سے کچھ مصنوعات بھی امریکا اور دیگر ممالک میں پہنچ رہی ہیں۔ اس خبر رساں ادارے نے شمالی کوریا کے مزدوروں کی جانب سے تیار کی جانے والی مصنوعات کی کینیڈا، جرمنی اور یورپی یونین کی چند دیگر ریاستوں میں بھی موجودگی کا پتا چلایا ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی ’فوڈ فائٹ‘
00:56
اس تحقیقاتی رپورٹ کے جواب میں امریکی قانون سازوں کی جانب سے بدھ کے روز کہا گیا ہے کہ امریکا کو ہر حال میں شمالی کوریائی مصنوعات کو مارکیٹ سے باہر رکھنا چاہیے، جب کہ چینی حکومت کو شمالی کوریا مزدوں کو اپنے ملک میں جگہ نہیں دینا چاہیے۔
ڈیموکریٹ سینیٹر چک شُومر کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کو اس سلسلے میں چین پر دباؤ میں اضافہ کرنا چاہیے کہ وہ شمالی کوریا سے کی جانے والی تجارت کو روکے۔