امریکا میں فائرنگ کا ایک اور واقعہ، سترہ افراد ہلاک
عاطف بلوچ، روئٹرز
15 فروری 2018
امریکا میں ایک انیس سالہ لڑکے نے مبینہ طور پر پارک لینڈ کے ایک ہائی اسکول میں فائرنگ کرتے ہوئے سترہ افراد کو ہلاک کر دیا ہے۔ یہ لڑکا اسی اسکول کا سابقہ طالب علم تھا، جیسے وہاں سے نکال دیا گیا تھا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک اسکول میں ہوئی فائرنگ کی وجہ سے سترہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ پارک لینڈ کے ایک ہائی اسکول کے کمپاؤنڈ میں یہ کارروائی مشتبہ طور پر ایک انیس سالہ لڑکے نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کی۔
پولیس اہلکار اسکاٹ ازرائیل نے بتایا کہ حملہ آور نے اسکول کے باہر فائرنگ شروع کی، جس کے نتیجے میں تین افراد مارے گئے۔ اس کے بعد ٹین ایجر حملہ آور نے اسکول میں داخل ہو کر فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دوران مزید بارہ افراد ہلاک ہو گئے۔ انہوں نے بتایا کہ دو افراد نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں دم توڑ دیا۔
طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ اس فائرنگ کے واقعے میں ایک درجن کے قریب افراد زخمی بھی ہوئے۔ ان میں سے چھ افراد کو طبی مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ تین زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس واقعے پر شدید افسوس کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ امریکا کے اسکولوں میں بچوں کو محفوظ رہنا چاہیے۔
پولیس نے مشتبہ حملہ آور کا نام نکولس کروز بتایا ہے، جو اسی اسکول کا ایک سابقہ طالب علم ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کچھ عرصہ قبل ہی اس طالب علم کو انضباطی کارروائی کرتے ہوئے اس اسکول سے نکال دیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق کروز سے AR-15 طرز کی رائفل برآمد ہوئی ہے۔
پولیس نے بتایا ہے کہ ملزم کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ اس حملے کے محرکات جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں کسی امریکی اسکول میں شوٹنگ کا یہ ایسا چھٹا واقعہ ہے، جس میں طالب علم زخمی یا ہلاک ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر رواں برس کے دوران تعلیمی اداروں میں فائرنگ کے اٹھارہ واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
گزشتہ پانچ برسوں میں کسی امریکی اسکول میں یہ سب سے ہلاکت خیز کارروائی قرار دی جا رہی ہے۔ تب سن دو ہزار بارہ میں امریکی ریاست کنیکٹیکٹ کے سینڈی ہک اسکول میں ہوئی فائرنگ کی ایک واردات کے نتیجے میں چھبیس افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ امریکی تاریخ میں کسی تعلیمی ادارے میں فائرنگ کا سب سے ہولناک واقعہ ورجینیا ٹیکنیکل یونیورسٹی میں سن 2007 میں پیش آیا تھا، جس میں 32 لوگ مارے گئے تھے۔
تعلیم کہاں کہاں اور کیسے کیسے
تعلیم ایک بنیادی حق ہے اور سیکھنے کا عمل پوری دنیا میں جاری ہے لیکن بچے کن حالات میں تعلیم حاصل کرتے ہیں؟ یہ عمل پوری دنیا میں بڑا متنوع ہے۔ دنیا کے مختلف اسکولوں کا ایک چھوٹا سا سفر۔
تصویر: Reuters/B. Kelly
افغانستان
مہاجرہ ارمانی افغانستان کے شمالی شہر جلال آباد میں بچیوں کو تعلیم دے رہی ہیں۔ مشکل اور نامساعد حالات کے باوجود اب افغانستان میں اسکول جانے والی چھوٹی عمر کی بچیوں کی تعداد چوہتر فیصد ہو چکی ہے۔
تصویر: Reuters/Parwiz
جاپان
ٹوکیو کے ایک اسکول میں بچے دوپہر کا کھانا کھا رہے ہیں۔ جاپانی نظام تعلیم کا شمار دنیا کے بہترین نظاموں میں ہوتا ہے۔ جاپانی اسکول سسٹم دنیا کے لیے رول ماڈل بن چکا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
برازیل
برازیل کے ان بچوں کا اسکول مسلسل ہلتا رہتا ہے۔ برازیلی دریاؤں پر بنائے جانے والے ایسے سرکاری اسکولوں کا تعلیمی معیار بہت اچھا نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں کا امیر یا متوسط طبقہ اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں بھیجتا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Kelly
امریکا
امریکا کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے لیکن تعلیمی میدان میں امریکا بھی عدم مساوات کا شکار ہے۔ اسکولوں کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ لاطینی امریکی نسل کے بچوں اور سیاہ فاموں کی نسبت سفید فام بچوں کو اچھی تعلیمی سہولیات میسر ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Young
ویتنام
تیسری جماعت کے یہ بچے بغیر بجلی اور بغیر کتابوں کے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ استانی بچوں کو مقامی زبان ’ہمونگ‘ سکھا رہی ہیں۔ لیکن خراب تعلیمی حالات کے باوجود ویتنام کے طالب علم بین الاقوامی ’پیزا سروے‘ میں اپنا مقام بہتر بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kham
برطانیہ
انگلینڈ میں اسکول یونیفارم پہننے کی ایک طویل روایت ہے۔ جرمنی اور کئی دیگر یورپی ملکوں کے برعکس برطانیہ میں طلبہ کا ایک جیسا لباس ضروری ہے۔ یہ روایت کب اور کہاں سے چلی، واضح نہیں ہے اور نہ ہی ملک میں ایسا کوئی قانون ہے، جو طلبا و طالبات کی یونیفارم سے متعلق وضاحت کرتا ہو۔
تصویر: Reuters/S. Plunkett
پاکستان
پاکستان میں نجی اسکولوں کا معیارِ تعلیم سرکاری اسکولوں سے بہتر سمجھا جاتا ہے لیکن ایسے غریب شہری بھی موجود ہیں، جو اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھی بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اسلام آباد کے ماسٹر ایوب کھلے آسمان تلے ایسے ہی غریب اور نادار بچوں کو مفت تعلیم دیتے ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
مراکش
مراکش کے دارالحکومت رباط میں پرائمری اسکول کے کمرے اکثر رنگین ہوتے ہیں۔ ابتدائی سالوں میں بچوں کے اسکول جانے کی شرح بہت اچھی ہے اور تقریباﹰ بانوے فیصد بچے بچیاں اسکول جاتے ہیں۔ پندرہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ان کی تعداد نصف رہ جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/Y. Boudlal
کینیا
اس افریقی ملک میں سن دو ہزار تین سے تمام بچے بغیر کوئی فیس ادا کیے پرائمری اسکول جا سکتے ہیں۔ تاہم اس نئے قانون کے بعد ضروری سرمایہ کاری نہیں کی گئی اور اب اسکولوں میں سہولیات کم اور بچے زیادہ ہیں۔
تصویر: Reuters/N. Khamis
ملائشیا
اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے عالمی پروگرام ’پیزا‘ کے مطابق ملائشیا کے اسٹوڈنٹس اپنے آپ خوش قسمت ترین قرار دیتے ہیں۔ اس ملک کی ساٹھ فیصد آبادی مسلمان ہے۔ یہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد مدرسوں میں بھی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Harris
یوکرائن
اس ملک میں بچوں کو پہلی کلاس میں ہی کوئی نہ کوئی غیر ملکی زبان سکھانا شروع کر دی جاتی ہے جبکہ کئی اسکولوں میں پانچویں کلاس میں دوسری غیر ملکی زبان سیکھنا بھی لازمی ہوتی ہے۔
تصویر: Reuters/G. Garanich
چلی
لگتا تو نہیں لیکن یہ پہلی کلاس کے طلبا و طالبات ہیں۔ چلی کے دارالحکومت میں یہ خواتین و حضرات شام کی کلاسیں لیتے ہیں۔ چلی میں تعلیمی نظام تقریباﹰ مکمل طور پر نجی شعبے کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں غریب گھرانے اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھجوا سکتے۔