امریکی مسلمانوں اپنی مساجد کے لیے مناسب اور صاحب علم آئمہ کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ کئی ریاستوں میں مساجد تو ہیں لیکن ان میں مذہب اسلام کی تعلیم دینے والے اسکالرز موجود نہیں ہیں۔
اشتہار
امریکی ریاست میشیگن کے شہر ڈیٹرائٹ کی نواحی بستی میں مقيم ایک مسلمان اسکالر کا نام محمد قزوینی ہے اور وہ ایران کے مذہبی شہر قم کے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ اپنی مسجد میں موجود نمازیوں سے انگریزی میں خطاب کرتے ہیں۔ وہ عربی زبان پر بھی کمال مہارت اور عمدہ عبور رکھتے ہیں۔ وہ کئی نمازیوں کے ساتھ مذہبی گفتگو فرداً فرداً بھی کرتے ہیں۔ محمد قزوینی کا آبائی وطن عراق ہے۔
قزوینی نے اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر ایک مذہبی مدرسے کی بنیاد رکھی ہے۔ اس کا نام ' اسلامک انسٹیٹیوٹ آف امریکا‘ ہے۔ یہ مدرسہ سن 2017 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس میں باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ طلبا کی تعداد پینتیس ہے لیکن دیگر چار سو ایسے بھی ہیں جو وقتاً فوقتاً اس مدرسے میں پہنجتے ہیں یا ٹیلی وژن کے ذريعے اس کی سرگرميوں سے آگاہ رہتے ہيں۔
یہ مدرسہ یا مذہبی اسکول اپنے پروگراموں کی ویڈیوز بھی مارکیٹ کرتا ہے۔ کئی افراد ان ویڈیوز سے بھی قزوینی کی تقاریر سننے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسلامک انسٹیٹیوٹ آف امریکا میں مجموعی طور پر قزوینی سمیت پانچ مدرس یا انسٹرکٹرز ہیں۔ مدرسے میں پچیس مختلف ممالک کے طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
محمد قزوینی کے مدرسے کے ایک اور امام علی الحجہ ہيں، جنہوں نے حال ہی میں اس مذہبی مدرسے میں بطور انسٹرکٹر شمولیت اختیار کی ہے۔ وہ بھی عربی زبان پر دسترس رکھتے ہیں۔ قزوینی کے مدرسے میں بنیادی طور پر شیعہ اسلام کو بیان کیا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے اس مدرسے کو سنی عقیدے یا عرب دنیا سے تعلق رکھنے والے آئمہ کی مخالفت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ قزوینی کے مطابق امریکا میں یہ مدرسہ شیعہ اسلام کے تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے۔
امریکا میں عموماً علما مشرق وسطیٰ سے آیا کرتے تھے لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بعض عرب ممالک پر عائد کی جانے والی سفری پابندیوں کے بعد آئمہ اور علما کی آمد بہت مشکل ہو گئی ہے۔ اس باعث امريکا اور کینیڈا میں کئی مساجد ميں ان دنوں آئمہ کی کمی ہے۔ ان مساجد میں جزوقتی آئمہ موجود ہیں لیکن وہ قران کی عربی پر عبور نہیں رکھتے اور کلاسیکی عربی زبان سے بھی بظاہر ناآشنا ہیں۔
ڈیٹرائٹ کی نواحی بستی کے قریبی شہر ٹولیڈو میں واقع شیعہ اسلامی اہل بیت مرکز مسجد گزشتہ چار برسوں سے بغیر کسی امام کے ہے۔ محمد قزوینی بسا اوقات ایک گھنٹے کی مسافت طے کر کے ٹولیڈو کی اس مسجد میں خطاب کے لیے جاتے رہے ہیں۔ ٹولیڈو کا شہر اوہائیو ریاست میں واقع ہے۔
امریکا میں ڈیٹرائٹ کا شہر مسلمانوں کا ایک مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ اس شہر کے نوجوان مسلمانوں کو مذہب کی روشنی میں جدید تقاضوں کو سمجھنے کی شدید ضرورت ہے۔ قزوینی کے مطابق ان کا مرکز نوجوان مسلمانوں کی فکر اور سوچ کی ضروریات پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
ع ح ⁄ ع س (اے پی)
جدید اور شائستگی سے عبارت عصری مسلم فیشن ملبوسات
اسلام اور جدید طرز کے فیشن، مغربی دنیا میں کئی حلقوں کی طرف سے یہ ایک تضاد سے بھری بات قرار دی جاتی ہے۔ اس موضوع پر امریکی شہر سان فرانسسکو کے ڈی ینگ میوزیم میں منعقدہ نمائش 6 جنوری تک جاری رہے گی۔
تصویر: Sebastian Kim
جدید لیکن شائستہ
ڈی ینگ میوزیم میں رکھے گئے مسلم پہناوے جدیدیت اور شائستگی کے عناصر کے حامل خیال کیے گئے ہیں۔ مسلم ممالک میں مروج جدید فیشن کے ملبوسات ریشمی اور کرسٹل سے مزین ہیں۔ اس تصویر میں پہناوے کی ڈیزائننگ ملائیشیا کے فیشن ڈیزائنر برنارڈ چندرن نے کی ہے۔ چندرن ملائیشیا کی اشرفیہ میں ایک مقبول ڈیزائنر ہیں۔
تصویر: Fine Arts Museums of San Francisco
جکارتہ سے نیو یارک تک
ملائیشیا ہی کے ڈیان پیلانگی نے بھی اپنے فیشن ملبوسات کو مغرب میں متعارف کرایا ہے۔ اس نوجوان ڈیزائنر کے ملبوسات کو پہن کر لندن، میلان اور نیو یارک کے فیشن شوز میں مرد اور خواتین ماڈل کیٹ واک کر چکے ہیں۔
تصویر: Fine Arts Museums of San Francisco
سیاسی پیغام
ڈی ینگ میوزیم کا فیشن شو اصل میں ’اسلام سے خوف‘ سے جڑا ہوا ہے۔ ایک جیکٹ پر امریکی دستور کی پہلی شق کو عربی میں ترجمے کے ساتھ چسپاں کیا گیا ہے۔ امریکی آئین کی یہ شق آزادئ مذہب کی ضامن ہے۔ یہ جیکٹ لبنانی ڈیزائنر سیلین سیمعن ورنون کی کاوش ہے۔ یہ لبنانی فیشن ڈیزائنر سن انیس سو اسّی کی دہائی میں کینیڈا بطور مہاجر پہنچی تھیں لیکن بعد میں وہ امریکا منتقل ہو گئی تھیں۔
تصویر: Sebastian Kim
ٹرمپ کی ’مسلمانوں پر پابندی‘ کا ایک جواب
سیلین سیمعن نے اپنے ڈیزائن کردہ ملبوسات کو عصری سیاسی رویوں سے مزین کیا ہے۔ انہوں نے ’بین‘ یعنی پابندی کے لفظ کو اپنے سکارف پر واضح انداز میں استعمال کیا ہے۔ چند اسکارفس پر ایسے ممالک کی سیٹلائٹ تصاویر پرنٹ ہیں، جو امریکی صدر ٹرمپ کی عائد کردہ پابندی سے متاثر ہوئے۔ اس تصویر میں نظر آنے والی ماڈل ایرانی نژاد امریکی شہری ہُدیٰ کاتبی ہیں۔
تصویر: Fine Arts Museums of San Francisco/Driely Carter
اسپورٹس فیشن
اس نمائش میں ملبوسات، جیکٹس اور اسکارفس کے علاوہ اسپورٹس فیشن سے جڑے لباس بھی رکھے گئے ہیں۔ ان میں نائکی کا حجاب اور احدہ زانیٹی کی متنازعہ برکینی بھی شامل ہیں۔ اس برکینی کو سن 2016 میں فرانس میں عبوری مدت کے لیے پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
تصویر: DW/A. Binder
طرز تعمیر کی علامتی طاقت
ڈی ینگ میوزیم کے نمائشی ہال کو مشہور تعمیراتی فرم حریری اینڈ حریری نے ڈیزائن کیا ہے۔ یہ تعمیراتی فرم دو ایرانی نژاد امریکی بہنوں کی ہے۔ نمائش دیکھنے والے اس ہال کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ نمائش فرینکفرٹ اور میلان میں بھی کی جائے گی۔
تصویر: DW/A. Binder
سوشل نیٹ ورکس: اظہار کے مقام
اس نمائش کو مسلم دنیا کے درجنوں بلاگرز، فیشن جریدوں اور سرگرم کارکنوں سے معنون کیا گیا ہے۔ اس نمائش میں جدید عصری مسلم دنیا کے فیشن ملبوسات کے کئی پہلوؤں کو سمو دیا گیا ہے۔ سان فرانسسکو میں یہ نمائش اگلے برس چھ جنوری تک جاری رہے گی۔