امریکا میں مظاہرے: نسل پرستی تو یورپ کا بھی مسئلہ ہے
13 جون 2020یونانی غیر منافع بخش تنظیم ڈیلفی اکنامک فورم پر یورپی یونین کے کمشنر برائے یورپی طرز حیات مارگاریٹس اسکیناس کا کہنا ہے کہ نسل پرستی کے خلاف کی جانے والی جد و جہد کے نتائج اب مثبت آنا شروع ہو چکے ہیں اور یورپ میں امریکا کی طرح نسلی تعصب کی صورت حال موجود نہیں ہے۔ ویڈیو لنک پر انہوں نے واضح کیا کہ اس کی وجہ یورپ میں امریکا کے مقابلے میں بہتر سماجی انضمام، تحفظ اور ہیلتھ کیئر کی سہولیات میّسر ہیں۔ اسکیناس نے اپنی گفتگو میں اس کا اعتراف کیا کہ یورپی یونین کو اس صورت حال میں مزید مؤثر اقدامات درکار ہیں تا کہ مساوات اور معاشرتی انضمام میں بہتری پیدا کی جا سکے۔
یورپی یونین میں نسلی تعصب کے تناظر میں سب سے زیادہ پریشانی روزگار کی منڈی میں پائی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے غیر یورپی افراد کی ہے اور ان کی درخواستوں کو کئی مقامات پر مسترد کر دیا جاتا ہے اور اس کے لیے ایک بنیادی وجہ 'ویکینسی‘ نہیں ہے، کا سہارا لیا جاتا ہے۔ گزشتہ ویک اینڈ پر فرانس میں نسل پرستی اور نسلی تعصب کے خلاف ہزاروں افراد ایک بڑے مظاہرے میں شریک تھے۔
فرانس میں نسلی تعصب
بعض سماجی ماہرین کے مطابق فرانس میں نسلی تعصب کی شدت کو کسی حد تک محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں یورپی کونسل کا وہ سروے بہت اہم خیال کیا گیا ہے، جس میں پانچ ہزار نوجوانوں نے شرکت کر کے سوالات کے جواب دیے تھے۔ ان کا سروے کے ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ افریقی نژاد یا عرب پس منظر کے افراد کو فرانسیسی پولیس دوسروں کے مقابلے میں بیس فیصد زیادہ روکتی ہے۔
ہزاروں فرانسیسی افراد کے مظاہرے میں یہ تبدیلی ضرور دیکھی گئی کہ ملکی وزیر داخلہ کرسٹوف کاسٹنر نے پولیس کو کسی بھی قسم کی مداخلت سے روک دیا تھا۔ کاسٹنر کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں معلوم ہے کہ بعض پولیس اہلکار نسلی تعصب کے حامل ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد ایسی سوچ نہیں رکھتی۔
مزید پڑھیے: کيا جرمن پوليس نسل پرست ہے؟
بیلجیئم اور برطانیہ کا نوآبادیاتی ماضی
ایسے مظاہرے بیلجیئم اور برطانیہ میں بھی دیکھے گیے۔ بیلجیئم بھی نوآبادیاتی ماضی رکھتا ہے۔ اس تناظر میں بیلجیئم میں آباد ہونے والے افریقی نسل کے لوگوں نے مطالبہ کیا ہے کہ بادشاہ لیوپولڈ دوم کے مجسمے کو ہٹایا جائے کیونکہ ان کے دور میں خاص طور پر کانگو میں پندرہ ملین افراد کو ہلاک کیا گیا تھا۔ اسی طرح کا مطالبہ برطانیہ میں بھی سامنے آیا ہے۔
لندن شہر کے میئر صادق خان بھی اس کے حق میں ہیں کہ نوآبادیاتی دور کے ایسے متنازعہ تاریخی کرداروں کے مجسموں کو اتار دیا جائے جو نسلی تعصب اور سامراجیت کی علامت تھے۔ مشرقی لندن میں سے غلاموں کی تجارت کرنے والے انگریز سوداگر رابرٹ ملیگین کے مجسمے کو مظاہرین کے مطالبے پر ہٹا دیا گیا ہے۔ برطانوی خاتون وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے متنازعہ تاریخی شخصیات کے مجسموں کو ہٹانے کو ناپسند کرتے ہوئے ایسے مظاہرین کے خلاف مقدمہ چلانے کی خواہش کا اظہار کیا، جنہوں نے مختلف شہروں میں مجسموں پر پتھراؤ کی کوشش کی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: جارج فلوئڈ کا آخری سفر، ہزارہا افراد نے الوداع کہا
ایسی آوازیں بھی بلند ہو رہی ہیں کہ یورپی یونین میں نسل پرستی کے خاتمہ کے لیے اداروں کو بااختیار بنانا ضروری ہے اور یورپی پارلیمنٹ میں ایشیائی یا افریقی نسل سے تعلق رکھنے والے اراکین کی تعداد میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے۔ یورپی یونین کے رکن ملکوں میں ایشیائی یا افریقی یا دوسری نسلوں کے افراد مجموعی آبادی کا دس فیصد ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ میں اس آبادی سے تعلق رکھنے والے اراکین کی تعداد چوبیس ہے۔ ان میں سویڈش گرینز سے تعلق رکھنے والی ایلس کئوہنکی بھی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اراکین کی تعداد آباد ہونے والے ایشیائی یا افریقی لوگوں کی آبادی کے مطابق نہیں ہے اور مستقبل میں مختلف پس منظر کے افراد کو پارلیمنٹ میں لانا از حد ضروری ہو گیا ہے۔
ع ح، ع آ (باربرا ویزل)