امریکا میں نسل پرستی کے خلاف پرتشدد احتجاجی مظاہرے جاری
26 جولائی 2020
مختلف امریکی شہروں میں کل ہفتے کے روز کیے گئے احتجاجی مظاہروں میں کئی مقامات پر صورت حال پرتشدد رنگ اختیار کر گئی۔ احتجاجی جلوسوں میں مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔
اشتہار
امریکی شہروں میں نسلی امتیاز اور پولیس کی پرتشدد کارروائیوں کے خلاف ہفتہ پچیس جولائی کو ہونے والے عوامی مظاہروں میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ ان مظاہروں کے دوران ایک کار شہر ڈینور میں مظاہرین پر چڑھ گئی جب کہ ریاست ٹیکساس میں ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا۔
'بلیک لائیوز مَیٹر‘ نامی تحریک کے سلسلے کا سب سے بڑا احتجاج شہر سیاٹل میں ہفتے کے روز دیکھنے میں آیا۔ حالیہ ہفتوں کے دوران وہاں کیا گیا یہ سب سے بڑا مظاہرہ قرار دیا گیا ہے۔ اس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے اور انہوں نے نے شہر کی مختلف سڑکوں پر احتجاجی مارچ کیا۔
یہ احتجاجی ریلی ایسے وقت پر نکالی گئی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جاری کردہ سیاٹل میں وفاقی پولیس کی نفری میں اضافے کے احکامات کو ابھی دو دن ہی ہوئے تھے۔
اس مارچ کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے غیر مہلک ہتھیاروں کا استعمال کیا کیونکہ کچھ مظاہرین نے نابالغ قیدیوں کے لیے زیر تعمیر ایک جیل اور عدلیہ کی ایک عمارت کو آگ لگا دی تھی۔
سیاٹل پولیس نے گیارہ افراد کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایک پولیس اہلکار ٹانگ پر چوٹ لگنے کے بعد ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ سیاٹل کے علاوہ کئی دیگر بڑے شہروں میں بھی صدر ٹرمپ سکیورٹی دستوں کی تعیناتی کا حکم دے چکے ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ عوامی مظاہروں کو طاقت کے زور سے کچل دینے کے اشارے دے چکے ہیں۔ دوسری جانب سماجی ناقدین نے ان مظاہروں میں شدت پیدا ہو جانے کا الزام پولیس پر لگایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس استحصالی اور غیر قانونی حربے استعمال کرنے سے گریز نہیں کر رہی۔
قبل ازیں ہفتہ پچیس جولائی کو امریکی ریاست کولوراڈو کے دارالحکومت ڈینور میں ایک کار مظاہرین کے ایک ہجوم میں گھس گئی اور اس واقعے میں زخمی ہونے والا ایک شخص ہسپتال میں زیر علاج ہے۔
اس کار کو جلوس کے شرکاء کی طرف بڑھتا دیکھ کر اس پر مظاہرین میں سے ایک نے فائرنگ بھی کی تھی۔ اس موقع پر مظاہرین نے ایک مقامی عدالت کی عمارت کی کھڑکیوں کے شیشے بھی توڑ دیے۔
اس کے علاوہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر آسٹن میں بھی پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کا سہارا لیا۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص کی ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی ہے۔
ریاست کینٹکی کے شہر لُوئی وِل میں مسلح سیاہ فام افراد نے ہفتے کے روز احتجاج میں حصہ لیتے ہوئے شہر کی کئی سڑکوں پر مارچ کیا۔
وہ رواں برس پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والی ایک سیاہ فام خاتون کے پسماندگان کے لیے انصاف طلب کر رہے تھے۔ ابھی تک اس خاتون کی ہلاکت کی فرد جرم کسی پولیس اہلکار پر عائد نہیں کی گئی۔
اس سیاہ فام خاتون کی ہلاکت جارج فلوئڈ کی موت کے بعد ہوئی تھی۔ امریکا میں نسلی امتیاز کے خلاف 'بلیک لائیوز مَیٹر‘ نامی تحریک فلوئڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد شروع ہوئی تھی۔
ع ح / م م (روئٹرز، اے ایف پی)
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔