1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا ناقابل اعتبار، پاکستانیوں کی رائے

4 جون 2012

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ اگرچہ امریکا معاشی مشکلات کے شکار جنوبی ایشیائی ملک پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد دے رہا ہے لیکن اس ملک کی رائے عامہ امریکا کو ایک ناقابلِ اعتبار حلیف گردانتی ہے۔

تصویر: picture alliance/dpa

اِس جائزے کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب واشنگٹن حکومت اُسامہ بن لادن کو پکڑنے میں سی آئی اے کی معاونت کرنے والے ایک پاکستانی ڈاکٹر کو جیل میں ڈالنے پر سخت ناراض ہے، زیادہ تر پاکستانی امریکا کو ایک متلون مزاج اور خود غرض حلیف ملک تصور کرتے ہیں۔

دارالحکومت اسلام آباد کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ کاروباری خاتون نے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے اپنے غم و غصے کا اظہار کچھ یوں کیا:’’ہمیں امریکا سے عدم استحکام اور تشدد کے سوا کچھ نہیں ملا۔‘‘ اِس خاتون کی طرح زیادہ تر پاکستانی یہی سمجھتے ہیں کہ گزرے تین عشروں میں امریکا سے پاکستان کو یہی کچھ ملا ہے۔

روئٹرز کے مطابق مغربی سفارت کاروں کے ساتھ ایک عشائیے میں شریک اس خاتون نے ان سفارت کاروں کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا:’’کیا آپ نہیں جانتے تھے کہ اُسامہ بن لادن سی آئی اے کا ایجنٹ تھا؟‘‘ خاتون کا اشارہ 80ء کے عشرے میں افغانستان پر سوویت قبضے کے خلاف امریکی پشت پناہی سے ہونے والی مزاحمت میں بن لادن کے کردار کی طرف تھا:’’تب وہ (بن لادن) اور واشنگٹن مل کر لڑ رہے تھے۔‘‘

CIA کے ایک سابق افسر بروس ریڈل کا کہنا ہے کہ طالبان صرف اور صرف پاکستان کی حمایت کی وجہ سے ایک قوت بنے ہوئے ہیںتصویر: Brookings Institution

پولیو کے قطرے پلانے کی ایک جعلی مہم کے ذریعے بن لادن اور اُس کے خاندان تک پہنچنے والے پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کو حال ہی میں ایک پاکستانی عدالت نے تینتیس سال کی سزائے قید کا حکم سنایا تھا۔ ایک امریکی عہدیدار نے کہا:’’واشنگٹن میں بہت سے لوگ اس سزا سے ناخوش ہیں۔ ڈاکٹر آفریدی کو جیل بھیجا جا رہا ہے۔ اس شخص کو تو ہیرو ہونا چاہیے جبکہ تم (پاکستانیوں) نے اُسے ایک غنڈہ بنا دیا ہے۔‘‘

پاکستانی حکام کے مطابق آفریدی کو سی آئے اے کے ساتھ اُس کے روابط کی وجہ سے غداری کے الزام میں سزا دی گئی ہے جبکہ عدالت کی طرف سے بعد میں جاری ہونے والی ایک دستاویز کے مطابق ڈاکٹر آفریدی کو ایک کالعدم عسکریت پسند گروپ کی معاونت کرنے کے الزام میں قصور وار قرار دیا گیا ہے۔

ملیحہ لودھی، جو ماضی میں واشنگٹن میں پاکستان کی سفیر رہ چکی ہیں، کہتی ہیں:’’دونوں ملکوں کے تعلقات خراب تر ہوتے جا رہے ہیں اور دونوں ملکوں کی رائے عامہ کے خیالات ایک دوسرے کے لیے ایک آئینہ ہیں، جس میں دونوں ایک دوسرے کو تقریباً ایک دشمن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میں امریکا مخالف جذبات کی بڑی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں امریکا کی سرکردگی میں دَس سال سے زیادہ عرصے سے جاری فوجی مداخلت کے نتیجے میں پاکستان کو عدم استحکام ملا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ امریکی پالیسیوں کے باعث خطے کو اور بالخصوص پاکستان کو نقصان ہی پہنچ رہا ہے۔‘‘

ریمنڈ ڈیوس کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے پاکستانی شہروں میں مظاہرےتصویر: AP

روئٹرز کے جائزے کے مطابق پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد سی آئی اے کے کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی پر بھی سیخ پا ہے، جس نے گزشتہ سال لاہور میں دو پاکستانی شہریوں کو قتل کر دیا تھا۔ بعد ازاں مقتولین کے خاندانوں کو 2.3 ملین ڈالر ادا کر دیے گئے اور ڈیوس کو اپنے وطن واپس جانے کی اجازت دے دی گئی۔

زیادہ تر پاکستانیوں کا خیال یہ بھی ہے کہ پہلے کی طرح اب بھی 2014ء میں امریکا افغانستان سے دستے واپس بلانے کے بعد اس علاقے کو نظر انداز کر دے گا اور اُس کی بوئی ہوئی فصل خطے کے ممالک اور خاص طور پر پاکستان کو کاٹنی پڑے گی۔

پاکستانی حکام اور عوام کا مؤقف ہے کہ پاکستان نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں بہت قربانیاں دی ہیں اور ہزارہا پاکستانی فوجی اور شہری مارے جا چکے ہیں لیکن جوب میں امریکا کی جانب سے پاکستان کو صرف تنقید اور بد اعتمادی ہی ملی ہے۔ واشنگٹن حکومت کو گلہ ہے کہ پاکستانی حکام مخلص نہیں ہیں جبکہ طالبان کو ختم کرنے کے لیے اُنہیں ہر قسم کی معلومات فوری طور پر امریکا کو فراہم کرنی چاہییں۔ مختصر یہ کہ شکوک و شبہات دونوں جانب موجود ہیں۔

aa/ia/afp/ap

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں