1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا نہیں مانے گا، جرمن چانسلر کی نااُمیدی

ندیم گِل13 جولائی 2014

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس بات پر شکوک شبہات کا اظہار کیا ہے کہ امریکا جرمنی کے خلاف جاسوسی کی کارروائیاں ترک کر دے گا۔

تصویر: Adam Berry/Getty Images

انگیلا میرکل کی یہ نااُمیدی ہفتے کو جرمنی کے پبلک نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف کے ساتھ ایک انٹرویو میں سامنے آئی۔ اس انٹرویو میں انہوں نے جرمنی کے خلاف جاسوسی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی سکیورٹی سروسز امریکی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جرمن چانسلر کا یہ انٹرویو آج اتوار کی شام نشر کیا جائے گا۔ تاہم اس بات چیت سے اقتباسات ہفتے کی شب جاری کر دیے گئے۔ ان کے مطابق انگیلا میرکل نے کہا: ’’میں سمجھتی ہوں کہ امریکیوں کو قائل کرنا آسان نہیں ہے ۔۔۔ تاکہ وہ اپنی انٹیلیجنس سروسز کے طریقہ کار کو مکمل طور پر تبدیل کریں۔‘‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا انہیں امریکی ایجنسیوں کی جانب سے بالخصوص جرمنی کی جاسوسی کے حوالے سے پالیسیاں تبدیل کیے جانے کی توقع ہے تو انہوں نے کہا: ’’میں اس بات کی پیشن گوئی نہیں کر سکتی، لیکن میں یہ اُمید ضرور کرتی ہوں کہ تبدیلی آئے گی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا: ’’ایک ساتھ کام کرتے ہوئے ہمیں ہر وقت یہ بات مدِ نظر رکھنی ہوتی ہے کہ کہیں ہمارے سامنے بیٹھا فرد ممکنہ طور پر بیک وقت کسی اور کے ساتھ تو کام نہیں کر رہا، میرے نزدیک ایسا تعلق قابلِ بھروسہ نہیں۔‘‘

جرمن چانسلر انگیلا میرکلتصویر: Reuters

انگیلا میرکل کا کہنا تھا: ’’اس حوالے سے ہمارے نظریات مختلف ہیں اور ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

رواں ہفتے جمعرات کو جرمن وزارتِ خارجہ نے دارالحکومت برلن سے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ایک اہم جاسوس کی رخصت کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے ردِ عمل میں جمعے کو وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ امریکا جاسوسی کے تنازعے پر جرمنی کے ردِ عمل پر نالاں ہے۔

جرمنی اور امریکا کے درمیان یہ نیا تنازعہ اس انکشاف پر ہوا ہے کہ ایک جرمن خفیہ ادارے کے دو ارکان مبینہ طور پر امریکا کے لیے کام کر رہے تھے اور انہوں نے امریکا کو خفیہ دستاویزات فروخت کیں۔

گزشتہ دِنوں جرمنی کی انٹیلیجنس ایجنسی بی این ڈی کے ایک ملازم کو جاسوسی کے الزام پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق بی این ڈی کے عہدے داروں کا کہنا تھا کہ مشتبہ جاسوس ایجنسی کے ’فارن ڈویلپمنٹ ایریاز‘ ڈویژن سے منسلک تھا اور وہ درحقیقت ایک ایجنٹ نہیں تھا۔

ڈی پی اے نے بی این ڈی کے ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ اس مشتبہ جاسوس نے پچیس ہزار یورو کے عوض ایک نامعلوم امریکی خفیہ ایجنسی کو 218 خفیہ دستاویزات فروخت کیں۔ تاہم بی این ڈی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان دستاویزات میں کسی طرح کی حسّاس معلومات شامل نہیں تھیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں