امریکا نے ایرانی تیل کی فروخت پر نئی پابندیاں عائد کردیں
27 اکتوبر 2020
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کردی ہیں جس کے بعد تہران، شام اور وینزویلا کو بھی تیل فروخت نہیں کرسکے گا۔ اسے آئندہ صدارتی انتخابات میں کامیابی کے لیے صدر ٹرمپ کا ایک اور حربہ سمجھا جا رہا ہے۔
اشتہار
ٹرمپ انتظامیہ کے اس نئے فیصلے سے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہو جانے کی صورت میں بھی جو بائیڈن کے لیے ایران کو تیل کی فروخت کی اجازت دینے کی کوشش فی الحال محدود ہوگئی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے 2018ء سے ہی اسلامی جمہوریہ ایران پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جن کا مقصد تیل کی برآمدات کو روکنا اور امریکا کے حلیف ممالک سعودی عرب اور اسرائیل کے اس علاقائی حریف کے مالی وسائل کے ذرائع کو مکمل طور پر بند کردینا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے پیر 26 اکتوبر کو اس نئے فیصلے کے تحت ایران کی سرکاری نیشنل ایرانین آئل کمپنی، ایران کی وزارت پٹرولیم اور نیشنل ایرانین ٹینکر کمپنی کا نام انسداد دہشت گردی اتھارٹی کی فہرست میں شامل کر دیا ہے جس کے بعد نئی امریکی انتظامیہ کے لیے بھی ممکنہ طور پر اس فیصلے کو واپس لینے میں روکاوٹ پیدا ہوگئی ہے۔
امریکی وزارت خزانہ نے تینوں ایرانی شعبوں کو اس کے پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے ساتھ جوڑ کر نئی پابندیاں عائد کی ہیں۔ امریکا، القدس فورس کو پہلے ہی دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔ القدس کے کمانڈر قاسم سلیمانی اس سال جنوری میں بغداد ہوائی اڈے کے قریب ایک امریکی حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ نئی پابندیاں ایرانی تیل کے چند بچے کھچے خریداروں کے لیے انتباہی پیغام ہونا چاہیے۔
جنرل سلیمانی کی میت آبائی شہر کرمان پہنچا دی گئی
00:53
پومپیو نے اپنے بیان میں مزید کہا، ''یہ پابندیاں ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے لیے ایک اہم قدم ہیں تاکہ ہمسایوں کو دھمکانے اور مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی اس کی صلاحیت کو محدود کیا جا سکے۔"
ایران کے وزیر تیل بیژن نامدار زنگنہ نے پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ”واشنگٹن کی جانب سے خام تیل کی ایرانی برآمدات کو صفر پر لانے میں ناکام ہوجانے کے بعد یہ امریکا کی طرف سے ایک اور کوشش کی گئی ہے۔"
زنگنہ نے، جنہیں امریکا نے ذاتی طور پر بھی نشانہ بنایا ہے، ٹوئٹر پر لکھا، ”میرے ایران سے باہر کوئی اثاثے نہیں جو پابندیوں کی زد میں آئیں۔ میں ایران کے لیے اپنی جان، مال اور عزت قربان کر دوں گا۔"
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکی فیصلے پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکا کو پابندیاں لگانے کا عادی قرار دیا ہے اورمشورہ دیا کہ اسے یہ عادت چھوڑ دینی چاہیے۔
خیال رہے کہ اگر تین نومبر کے صدارتی انتخاب میں صدر ٹرمپ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے تو یہ ان کا یرانی رہنماؤں پر یہ آخری وار ہو گا۔
اس ماہ کے اوائل میں بھی ٹرمپ انتظامیہ نے ایرانی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے ایک اور بڑا قدم اٹھاتے ہوئے اس کے قومی بینکوں پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔ جس کی وجہ سے بیرونی دنیا کے ساتھ اس کی بیشتر لین دین مشکل ہوگیا ہے۔
دریں اثنا ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اقو ام متحدہ کی 75ویں سالگرہ کے موقع پرخطاب کرتے ہوئے امریکا پر الزام لگایا کہ وہ ایران کے خلاف اب تک آٹھ فوجی حملے کرچکا ہے جس کی وجہ سے 37 ملین افراد بے گھر ہوگئے اوراس ”غیرمعمولی انتہاپسندی" کی وجہ سے لاکھوں بے گناہ مارے گئے۔
محمد جواد ظریف نے اقو ام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس عالمی ادارے کو امریکا کی جانب سے شروع کی جانے والی یک طرفہ جنگ کے خلاف متحد ہونے کے لیے اپنے عہد کا اعادہ کرناچاہیے۔
ج ا / ا ب ا (اے ایف پی، اے پی)
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔