امریکا نے ایرانی وزیر خارجہ پر بھی پابندیاں لگا دیں
1 اگست 2019
امریکا نے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف پر بھی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس امریکی اقدام نے ایران کے ساتھ مذاکرات کی امریکی خواہش پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
اشتہار
امریکا کی طرف سے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے خلاف پابندیوں کا نفاذ ایک انتہائی غیر معمولی اقدام ہے جس نے ایک ایسے وقت پر سفارتی روابط کی راہیں مزید محدود کر دی ہیں جب ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پہلے ہی عروج پر ہے۔
امریکی وزارت خزانہ کی طرف سے بدھ 31 جولائی کو اعلان کیا گیا کہ محمد جواد ظریف پر پابندیاں اس لیے عائد کی جا رہی ہیں کیونکہ وہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں۔
وزیر خزانہ اسٹیون منوچن کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق، ''جواد ظریف ایرانی سپریم لیڈر کے عاقبت نا اندیشانہ ایجڈے پر عمل پیرا ہیں اور وہ دنیا بھر میں ایرانی حکمرانوں کے بنیادی ترجمان ہیں۔ امریکا ایرانی حکمرانوں کو یہ واضح پیغام بھیج رہا ہے کہ ان کا حالیہ رویہ ناقابل قبول ہے۔‘‘
ان امریکی پابندیوں کے تحت ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے امریکا کے میں موجود اثاثوں کو منجمد کر دیا جائے گا اور ساتھ ہی امریکی ادارے اب ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی کاروبار یا لین دین نہیں کر سکتے۔ ان پابندیوں کی ممکنہ زد میں ایسے غیر ملکی ادارے بھی آئیں گے جو ان امریکی پابندیوں کے برخلاف ظریف کے ساتھ مالیاتی روابط رکھیں گے۔
یہ ابھی واضح نہیں کہ آیا ان پابندیوں کے بعد محمد جواد ظریف نیویارک میں واقع اقوام متحدہ کے صدر دفاتر تک رسائی کے قابل ہوں گے یا نہیں۔ خیال رہے کہ واشنگٹن حکومت ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت اس بات کی پابند ہے کہ وہ ان کی اقوام متحدہ آمد و رفت کو روک نہیں سکتی، تاہم ان کی نقل کو حرکت کو محض وہاں تک محدود رکھ سکتی ہے۔
محمد جواد ظریف نے ان پابندیوں کا ردعمل اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں ظاہر کیا ہے: ''مجھے پابندیوں کا نشانہ بنانے کی امریکی وجہ کہ میں دنیا بھر میں ایران کا اہم ترین ترجمان ہوں، کیا یہ حقیقت واقعی تکلیف دہ ہے؟ اس کا مجھ پر یا میرے خاندان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ میری ایران سے باہر کوئی جائیداد یا مفادات نہیں ہیں۔ اپنے ایجنڈا کے خلاف مجھے اس طرح کا انتہائی بڑا خطرہ سمجھنے پر آپ کا شکریہ!‘‘
ایرانی وزیر خارجہ کے خلاف امریکی پابندیاں دراصل امریکا کی ایران کے خلاف 'زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ ڈالنے کی مسلسل جاری پالیسی کا حصہ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران کے ساتھ بین الاقوامی جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر الگ ہونے کے فیصلے کے بعد سے ایران کےخلاف امریکی پابندیاں سخت سے سخت کیے جانے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اور یہی معاملہ ان دونوں ممالک کے درمیان شدید کشیدگی کی بنیادی وجہ بھی ہے۔
امریکی پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔