امریکا نے بدھ کے روز ایران کے خلاف مزید نئی پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے زیر انتظام ایک فاونڈیشن کو بھی بلیک لسٹ کردیا ہے۔
اشتہار
ایران میں گزشتہ برس حکومت مخالف تحریک کے دوران، امریکا کے بقول، مظاہرین پر کریک ڈاؤن اور ان کے حقوق کی پامالیوں کی وجہ سے ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای کے زیر انتظام ایک فاؤنڈیشن، وزیر انٹلیجنس محمود علوی اور دیگر سینیئرعہدیداروں کے خلاف پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ کی طرف سے نافذ کی جانے والی یہ نئی پابندیاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے ایران کے خلاف 'زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ برقرار رکھنے کی مہم کے تحت تازہ ترین کارروائی ہے۔ یہ پابندیاں ایسے وقت نافذ کی گئی ہیں جب نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کو اقتدار منتقل کرنے میں محض دو ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ حالانکہ ٹرمپ نے تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں اپنی شکست اب تک باضابطہ تسلیم نہیں کی ہے اور وہ اس بات پر مصر ہیں کہ انہوں نے ہی انتخاب جیتا ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ نے جن نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے ان میں آیت اللہ خامنہ ای کی سرپرستی میں کام کرنے والا ایک خیراتی ادارے کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ نے خامنہ ای کے زیر انتظام ”بنیاد مصطظفان فاؤنڈیشن"کو بلیک لسٹ کردیا ہے۔ اس کے علاوہ 10 افراد سمیت توانائی، کان کنی اور مالیاتی خدمات کے شعبوں سے وابستہ فاؤنڈیشن کے ذیلی اداروں پر بھی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔
ان پابندیوں کے تحت امریکا نے ان افراد اور اداروں کے اثاثوں کو منجمد کردیا ہے اور کسی بھی امریکی کے ان کے ساتھ تجارت کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ پابندی شدہ اداروں کے ساتھ لین دین کرنے والے دیگر ملکوں اور افراد بھی امریکی پابندی کے زد میں آسکتے ہیں۔
ایران میں خامنہ ای مخالف مظاہرے
ایرانی حکومت کی جانب سے یوکرائنی ہوائی جہاز کو غلطی سے مار گرانے کو تسلیم کرنے پر عوام نے اپنی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے دارالحکومت ایران سمیت کئی دوسرے شہروں میں کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NurPhoto/M. Nikoubaz
تہران میں مظاہرے
ایرانی دارالحکومت تہران میں سینکڑوں افراد حکومت مخالف مظاہروں میں شریک رہے۔ یہ مظاہرین ایرانی حکومت کے خلاف زور دار نعرے بازی کرتے رہے۔ ان مظاہرین کو بعد میں ایرانی پولیس نے منتشر کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
امیر کبیر یونیورسٹی
تہران کی دانش گاہ صنعتی امیر کبیر (Amirkabir University of Technology) ماضی میں تہران پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کہلاتی تھی۔ گیارہ جنوری سن 2020 کو ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے اس یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ کے سامنے کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/R. Fouladi
ایرانی مظاہرین کا بڑا مطالبہ
یونیورسٹی طلبہ کا سب سے اہم مطالبہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی دستبرداری کا تھا۔ ان مظاہرین نے مقتول جنرل قاسم سلیمانی کی تصاویر کو پھاڑا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی جاری کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
مظاہروں کا نیا سلسلہ
گیارہ جنوری کو مظاہرے تہران کے علاوہ شیراز، اصفہان، حمدان اور ارومیہ میں بھی ہوئے۔ امکان کم ہے کہ ان مظاہروں میں تسلسل رہے کیونکہ پندرہ نومبر سن 2019 کے مظاہروں کو ایرانی حکومت نے شدید انداز میں کچل دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
برطانوی سفیر کی تہران میں گرفتاری و رہائی
ایرانی نیوز ایجنسی مہر کے مطابق سفیر کی گرفتاری مظاہروں میں مبینہ شرکت کا نتیجہ تھی۔ ایرانی دارالحکومت تہران میں متعین برطانوی سفیر راب میک ایئر نے کہا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے مظاہرے میں قطعاً شریک نہیں تھے۔ سفیر کے مطابق وہ یونیورسٹی کے باہر یوکرائنی مسافروں کے لیے ہونے والے دعائیہ تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے۔
تصویر: gov.uk
یوکرائنی طیارے کے مسافروں کی یاد
جس مسافر طیارے کو غلطی سے مار گرایا گیا تھا، اُس میں امیر کبیر یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ بھی سوار تھے۔ یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنے مظاہرے کے دوران اُن کی ناگہانی موت پر دکھ کا اظہار بھی کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
سابق طلبہ کی یاد میں شمعیں جلائی گئیں
تہران کی امیرکبیر یونیورسٹی کے طلبہ نے یوکرائنی ہوائی جہاز میں مرنے والے سابقہ طلبہ اور دیگر ہلاک ہونے والے ایرانی مسافروں کی یاد میں یونیورسٹی کے اندر شمعیں جلائیں۔ یوکرائنی مسافر بردار طیارے پر نوے سے زائد ایرانی مسافر سوار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
مہدی کروبی کا مطالبہ
ایران کے اہم اپوزیشن رہنما مہدی کروبی نے بھی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خامنہ ای یوکرائنی کمرشل ہوائی جہاز کی تباہی کے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کروبی ایران میں اصلاحات پسند گرین موومنٹ کے رہنما ہیں۔
تصویر: SahamNews
ڈونلڈ ٹرمپ اور ایرانی مظاہرین
ڈونلڈ ٹرمپ نے تہران حکومت خبردار کیا ہے کہ وہ ان مظاہرین پر ظلم و جبر کرنے سے گریز کرے۔ ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ وہ بہادر ایرانی مظاہرین کے ساتھ ہیں جو کئی برسوں سے مصائب اور تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق ایرانی حکومت پرامن مظاہرین کا قتل عام کر سکتی ہے مگر وہ یاد رکھے کہ دنیا کی اس پر نظر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
پندرہ نومبر سن 2019 کے مظاہرے
گزشتہ برس نومبر میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کئی بڑے ایرانی شہروں میں ہونے والے مظاہروں کو سخت حکومتی کریک ڈاؤن کا سامنا رہا تھا۔ یہ ایران میں چالیس سالہ اسلامی انقلاب کی تاریخ کے سب سے شدید مظاہرے تھے۔ بعض ذرائع اُن مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پندرہ سو کے لگ بھگ بیان کرتے ہیں۔ تصویر میں استعمال کیے جانے والے کارتوس دکھائے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
10 تصاویر1 | 10
امریکی وزیر خزانہ اسٹیون نوشین نے ایک بیان میں آیت اللہ علی خامنہ ای پر الزام عاید کیا ہے کہ ”وہ اپنی ”بنیاد مصطظفان فاؤنڈیشن" کو اپنے اتحادیوں میں خیرات کے نام پر رقوم بانٹنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ امریکا ایران کے ان بنیادی عہدے داروں اور آمدن پیدا کرنے کے ذرائع کو ہدف بناتا رہے گا جن کی بدولت ایرانی نظام نے اپنے ہی عوام کے خلاف جبر واستبداد کو جاری رکھا ہوا ہے۔“
امریکا کا الزام ہے کہ مذکورہ فاؤنڈیشن، جو کہ ایک اقتصادی، ثقافتی اور سماجی بہبود کا ادارہ ہے، نے غیر معمولی دولت اکٹھا کر رکھی ہے اور ایرانی معیشت نیز 1979ء میں اسلامی انقلاب کے بعد سے ضبط کی گئی ہزاروں کمپنیاں اور اثاثے اس کے کنٹرول میں ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ نے ایرانی انٹیلی جنس کے وزیر محمود علوی پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ اس نے محمود علوی پر نومبر2019ء میں حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے شرکاء کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے اپنی وزارت کو استعمال کر کے انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
امریکا نے جن افراد کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے ان میں پاسداران انقلاب اسلامی کے دو افسران بھی شامل ہیں۔ ان پر گزشتہ برس حکومت مخالف مظاہروں کے دوران ماہ شہر میں تقریباً 150 افراد کے قتل میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ نئی پابندیوں کی وجہ سے یہ افسران اور ان کے قریبی رشتہ دار امریکا کا سفر نہیں کرسکیں گے۔
ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کون تھے؟
01:17
’مایوسی کی علامت‘
اقوام متحدہ میں ایرانی مشن کے ترجمان علی رضا میر یوسفی نے امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف ان نئی پابندیوں کے اعلان کو ٹرمپ انتظامیہ کی'مایوسی کی علامت‘ قرار دیا۔
اشتہار
میر یوسفی نے کہا ”یہ تازہ ترین اقدامات ایران اور اس کے عوام کے خلاف 'زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ ڈالنے کی ناکام امریکی پالیسی کا تسلسل ہیں۔ اور یہ بھی اسی طرح ناکام ثابت ہوں گی جیسا کہ دیگر اقدامات ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔“
بنیاد مصطظفان فاؤنڈیشن کے سربراہ پرویز فتح نے ایک ٹوئٹ میں کہا ”زوال پذیر امریکی حکومت کے اس اقدام کا فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں اور خدمات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔"
بدھ کے روز امریکا نے جن افراد کو بلیک لسٹ کیا ہے ان میں پرویز فتح بھی شامل ہیں۔ پرویز فتح نے ٹرمپ کو'ناکام اور مایوس شخص‘ قرار دیا۔
ج ا /ص ز(روئٹرز)
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔