1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتشمالی امریکہ

ایران کے سول جوہری پروگرام پر عائد امریکی پابندیاں ختم

5 فروری 2022

امریکا نے ویانا میں ہونے والے مذاکرات کے تناظر میں ایران کے سول جوہری پروگرام پر عائد پابندیاں ختم کر دی ہیں۔ ایران کا اصرار اور شرط تھی کہ معاہدے میں واپسی کے لیے پہلے امریکا کو اپنی تمام پابندیاں ختم کرنا ہوں گی۔

USA I Antony Blinken
تصویر: Ken Cedeno/AP/picture alliance

امریکا نے چار فروری جمعے کے روز ایران کے سول نیوکلیئر پروگرام پر عائد پابندیوں کو ختم کر دیا۔ پیر سات فروری کو ویانا میں ہونے والی بات چیت سے قبل، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے متعدد پابندیوں کے خاتمے کے لیے دستاویزات پر دستخط کیے۔

سن 2015ء کے ایران جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں مذاکرات ہو رہے ہیں۔ یہ معاہدہ جوائنٹ کمپری ہنسیو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) یا مشترکہ جامع منصوبہ عمل کے نام سے معروف ہے۔

اس معاہدے کی رو سے ایران پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے بدلے میں تہران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا، تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں یکطرفہ طور اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

بلنکن نے پابندیوں کے خاتمے پر دستخط کر دیے

امریکی محکمہ خارجہ نے کانگریس کے لیے اپنے ایک نوٹ میں کہا ہے، ’’ان سرگرمیوں کے حوالے سے یہ چھوٹ اس بات چیت کو آسان بنانے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے، جو جے پی سی او اے پر مکمل نفاذ کے لیے باہمی واپسی کے معاہدے پر پہنچنے میں مددگار ثابت ہو گی اور ایران کو اس معاہدے میں واپس لانے کے لیے بنیاد بھی فراہم کرے گی۔‘‘

تصویر: Askin Kiyagan/AA/picture alliance

ان پابندیوں کے خاتمے سے بیرونی ممالک اور کمپنیوں کو ایران کے بوشہر جوہری پاور اسٹیشن، اراک کے ہیوی واٹر پلانٹ، اور تہران کے ریسرچ ری ایکٹر میں امریکی پابندیوں کی زد میں آئے بغیر کام کرنے کی اجازت مل جائے گی۔

سن 2018ء میں ٹرمپ کے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر نکل جانے اور دوبارہ امریکی پابندیاں نافذ کیے جانے کے بعد، ایران نے بھی بتدریج اس معاہدے کی خلاف ورزی شروع کر دی تھی۔ اس نے اپنے بعض جوہری پلانٹ میں یورینیم کی افزودگی کی شرح میں اضافہ کر دیا تھا اور یہ اس جانب ایک قدم تھا جس کی ضرورت ایٹم بم بنانے کے لیے ہوتی ہے۔

معاہدے کی بحالی کے لیے بات چیت میں اہم پیش رفت

امریکی صدر جو بائیڈن نے عہدہ سنبھالتے ہی جوہری معاہدے میں امریکا کی دوبارہ واپسی کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کوشش شروع کی تھی۔

گرچہ معاہدے کی بحالی کے لیے گزشتہ برس اپریل سے ویانا میں امریکا اور ایران نے بالواسطہ طور پر مذاکرات کے کئی دور کیے، تاہم تہران نے واشنگٹن کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں حصہ لینے کا اشارہ اس برس جنوری میں کیا تھا۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس بھی  ان مذاکرات میں شامل ہیں۔

بات چیت کے آغاز سے ہی ایران کا مسلسل اصرار اس بات پر تھا کہ پہلے امریکا کو اپنی تمام تر پابندیاں ختم کرنا ہوں گی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے امریکا نے یکطرفہ طور پر اپنے آپ کو الگ کر لیا تھا اس لیے معاہدے میں واپسی کی شرط یہ ہے کہ پہلے وہ پابندی ختم کرے۔

گزتہ ماہ جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک سے ملاقات کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاہدے کی واپسی کے لیے مذاکرات میں وقت سب سے اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''حل تلاش کرنے کی کھڑکی بند ہو رہی ہے۔ مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں ہیں۔ ہمیں فوری، بہت ہی جلد پیش رفت کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر، ہم کسی مشترکہ معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔‘‘

ص ز/  (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

ایرانی جوہری معاہدہ: ملکی عوام کتنے پر امید ہیں؟

03:11

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں