امریکا نے بھارت کے لیے ترجیحی تجارتی حیثیت ختم کر دی
1 جون 2019
امریکا نے بھارت کے لیے دو طرفہ تجارت میں نئی دہلی کو حاصل ترجیحی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارت نے ٹرمپ انتطامیہ کے اس فیصلے کو ’افسوس ناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے قومی مفادات پیش نظر رکھے گا۔
اشتہار
ہفتہ یکم جون کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن اور بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے ملنے والی جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ اکتیس مئی کو اعلان کیا کہ واشنگٹن جلد ہی دنیا میں آبادی کے لحاظ سے اس دوسرے سب سے بڑے ملک کو دی گئی ترجیحی تجارتی حیثیت ختم کر دے گا اور اگلے ہفتے سے بھارت کا شمار خصوصی تجارتی حیثیت سے فائدہ اٹھانے والے ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر نہیں کیا جائے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''اب اس فیصلے کے لیے وقت مناسب ہے کہ بھارت کو اس ترجیحی تجارتی حیثیت سے مستفید ہونے والا ترقی پذیر ملک نہ سمجھا جائے۔ یہ فیصلہ پانچ جون 2019ء سے مؤثر ہو جائے گا۔‘‘
اس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے چار مارچ کو اس بارے میں بھارت اور امریکی کانگریس کو باقاعدہ طور پر مطلع بھی کر دیا تھا کہ نئی دہلی کو امریکا کے عمومی نظام ترجیحات یا 'جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنسز‘ (GSP) سے خارج کر دیا جائے گا۔
سونے سے بھری ہیں ان ملکوں کی تجوریاں
گزشتہ چند سالوں سے دنیا کے پہلے دس مرکزی بینکوں میں سونے کے ذخائر میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے خزانے بھرے ہوئے ہیں کتنے سونے سے
یورپ میں سب سے زیادہ سونا جرمنی کی ملکیت جرمنی ہے۔ اس ملک کے پاس 3371 ٹن سونا موجود ہے۔
تصویر: picture-alliance / dpa
1۔ امریکا
سب سے زیادہ سونے کے ذخائر رکھنے والے ممالک کی فہرست میں نمبر ایک پر امریکا ہے۔ امریکا کے مرکزی بینک کے پاس 8133.5 ٹن سونا ہے۔ مصنف: اپووروا اگروال (ب ج، ع ا)
ایسی کسی حیثیت کے خاتمے کے لیے عام طور پر دو ماہ کا نوٹس درکار ہوتا ہے اور ٹرمپ انتظامیہ نے اب جو فیصلہ کیا ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وائٹ ہاؤس نے اس کے لیے خاص طور پر بھارت میں قومی پارلیمان کے طویل انتخابی عمل کے خاتمے کا انتظار کیا۔ اب جب کہ ان انتخابات کے نتیجے میں وزیر اعظم نریندر مودی ایک بار پھر سربراہ حکومت بن چکے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد کے اعلان میں کوئی تاخیر نہ کی۔
ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیار، کون سا ملک کہاں کھڑا ہے؟
ٹیکنالوجی کی دنیا کی تیز رفتار ترقی ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب گامزن ہے۔ امکانات کی اس عالمگیر دنیا میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہو گا۔ دیکھیے کون سا ملک کہاں کھڑا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
آسٹریلیا، سنگاپور، سویڈن – سب سے آگے
دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/A. Cser
جرمنی، امریکا، فن لینڈ، فرانس، جاپان اور ہالینڈ – چوتھے نمبر پر
یہ چھ ممالک یکساں پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر ہیں جب کہ امریکا پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہو پایا ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں جرمنی تیسرے اور جاپان آٹھویں نمبر پر تھا۔ ان سبھی ممالک کو 9.44 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
آسٹریا، سمیت پانچ ممالک مشترکہ طور پر دسویں نمبر پر
گزشتہ انڈیکس میں آسٹریا جرمنی کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا تاہم دی اکانومسٹ کی پیش گوئی کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں وہ اس ضمن میں تیز رفتار ترقی نہیں کر پائے گا۔ آسٹریا کے ساتھ اس پوزیشن پر بیلجیم، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ہیں۔
تصویر: Reuters
کینیڈا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ایسٹونیا، نیوزی لینڈ
8.87 پوائنٹس کے ساتھ یہ ممالک بھی مشترکہ طور پر پندرھویں نمبر پر ہیں
تصویر: ZDF
برطانیہ اور اسرائیل بائیسویں نمبر پر
اسرائیل نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے۔ 8.6 پوائنٹس کے ساتھ برطانیہ اور اسرائیل اس انڈیکس میں بیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters
متحدہ عرب امارات کا تئیسواں نمبر
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے بہتر درجہ بندی یو اے ای کی ہے جو سپین اور آئرلینڈ جیسے ممالک کے ہمراہ تئیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
قطر بھی کچھ ہی پیچھے
گزشتہ انڈیکس میں قطر کو 7.5 پوائنٹس دیے گئے تھے اور اگلے پانچ برسوں میں بھی اس کے پوائنٹس میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود اٹلی، ملائیشیا اور تین دیگر ممالک کے ساتھ قطر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
روس اور چین بھی ساتھ ساتھ
چین اور روس کو 7.18 پوائنٹس دیے گئے ہیں اور ٹیکنالوجی کے عہد کی تیاری میں یہ دونوں عالمی طاقتیں سلووینیہ اور ارجنٹائن جیسے ممالک کے ساتھ 32ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Baker
مشرقی یورپی ممالک ایک ساتھ
ہنگری، بلغاریہ، سلوواکیہ اور یوکرائن جیسے ممالک کی ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیاری بھی ایک ہی جیسی دکھائی دیتی ہے۔ اس بین الاقوامی درجہ بندی میں یہ ممالک انتالیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Imago
بھارت، سعودی عرب اور ترکی بھی قریب قریب
گزشتہ انڈیکس میں بھارت کے 5.5 پوائنٹس تھے تاہم ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں تیزی سے ترقی کر کے وہ اب 6.34 پوائنٹس کے ساتھ جنوبی افریقہ سمیت چار دیگر ممالک کے ساتھ 42 ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب 47 ویں جب کہ ترکی 49 ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AP
پاکستان، بنگلہ دیش – تقریباﹰ آخر میں
بیاسی ممالک کی اس درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 77واں ہے جب کہ بنگلہ دیش پاکستان سے بھی دو درجے پیچھے ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں پاکستان کے 2.40 پوائنٹس تھے جب کہ موجودہ انڈیکس میں اس کے 2.68 پوائنٹس ہیں۔ موبائل فون انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی پاکستان سے بھی پیچھے صرف دو ہی ممالک ہیں۔ انگولا 1.56 پوائنٹس کے ساتھ سب سے آخر میں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
11 تصاویر1 | 11
امریکی صدر کے اس اعلان کے بعد آج ہفتہ یکم جون کو نئی دہلی میں بھارتی وزارت تجارت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ''امریکا کے ساتھ اپنے دوطرفہ تجارتی مذاکرات میں بھارت نے واشنگٹن کو یہ پیشکش کر دی ہے کہ وہ اہم معاملات میں باہمی اختلاف رائے ختم کرنے پر تیار ہے، تاکہ ان معاملات کا دونوں ممالک کے لیے کوئی قابل قبول حل نکالا جا سکے۔‘‘
ساتھ ہی بھارتی وزارت تجارت نے اپنے اس بیان میں یہ بھی کہا، ''بھارت امریکا اور دیگر تمام ممالک کی طرح ایسے تجارتی معاملات میں اپنے قومی مفادات کو ہمیشہ پیش نظر رکھے گا، لیکن ساتھ ہی نئی دہلی اس بارے میں واشنگٹن کے ساتھ بات چیت پر بھی تیار ہے۔‘‘
ڈی پی اے کے مطابق بھارت اب اس بات پر بھی غور کر رہا ہے کہ وہ امریکا سے درآمد کی جانے والی بیس سے زائد مصنوعات پر درآمدی محصولات بڑھا دے۔
جی ایس پی ہے کیا؟
امریکی حکومت نے اپنا جی ایس پی نامی پروگرام 1976ء میں شروع کیا تھا۔ اس کا مقصد ترقی پذیر ممالک میں اقتصادی ترقی کی رفتار میں اضافے میں مدد دینا تھا۔ اسی لیے اس پروگرام کے تحت دوطرفہ تجارت میں ترجیحی حیثیت کی وجہ سے بھارت کو اب تک بہت زیادہ مالی فائدہ ہو رہا تھا۔
سب سے زیادہ کپاس پیدا کرنے والے ممالک – ٹاپ ٹین
پاکستان دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ اس پکچر گیلری میں جانیے دنیا میں اس اہم فصل کی سب سے زیادہ پیداوار کن ممالک میں ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۱۰۔ برکینا فاسو
مغربی افریقی ملک برکینا فاسو 283 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیداوار کے ساتھ عالمی سطح پر دسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: DW/R. Tiene
۹۔ ترکمانستان
نویں نمبر پر ترکمانستان ہے جہاں سن 2016 اور 2017 کے پیداواری موسم میں 288 ہزار میٹرک ٹن کپاس کاشت کی گئی۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/H. Elsherif
۸۔ ترکی
ترکی اس حوالے سے 697 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیداوار کے ساتھ عالمی سطح پر آٹھویں نمبر پر رہا۔
تصویر: MEHR
۷۔ ازبکستان
وسطی ایشیائی ملک ازبکستان 811 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیداوار کے ساتھ ساتویں نمبر پر رہا۔
تصویر: Denis Sinyakov/AFP/Getty Images
۶۔ آسٹریلیا
سن 2016-17 کے پیداواری موسم کے دوران آسٹریلیا میں 914 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیداوار ہوئی اور وہ عالمی سطح پر چھٹے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۵۔ برازیل
برازیل میں مذکورہ عرصے کے دوران 1524 ہزار میٹرک ٹن کپاس کاشت کی گئی اور وہ کپاس کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: DW/R. Tiene
۴۔ پاکستان
کپاس کا شمار پاکستان کی اہم ترین فصلوں میں ہوتا ہے اور یہ جنوبی ایشائی ملک کپاس پیدا کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ سن 2016 اور 2017 کے پیداواری موسم کے دوران پاکستان میں 1676 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیدوار ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۳۔ امریکا
تیسرے نمبر پر امریکا ہے جہاں گزشتہ پیداوری موسم کے دوران 3738 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیداوار ہوئی، جو کہ پاکستان سے تقریبا دو گنا زیادہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۲۔ چین
قریب پانچ ہزار میٹرک ٹن کپاس کے ساتھ چین دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/F. J. Brown
۱۔ بھارت
دنیا میں سب سے زیادہ کپاس بھارت میں کاشت کی جاتی ہے۔ گزشتہ پیداواری موسم کے دوران بھارت میں 5880 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیداوار ہوئی۔
تصویر: AP
10 تصاویر1 | 10
اس پروگرام کے تحت امریکا اپنے ہاں جی ایس پی میں شامل کردہ ممالک سے 2000 سے زائد ایسی صنعتی اور ٹیکسٹائل مصنوعات درآمد کرتا ہے، جن پر کوئی درآمدی ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا۔
مودی حکومت کے لیے دھچکا
ڈی پی اے نے اس بارے میں اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ امریکا کا بھارت کے حوالے سے یہ نیا تجارتی فیصلہ نریندر مودی کی اس نئی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے، جسے پہلے ہی اس جنوبی ایشیائی ملک میں اقتصادی ترقی کی کم ہوتی ہوئی شرح اور روز گار کے مواقع سمیت کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔
نقصان بھارت کا
عالمی ادارہ تجارت (ڈبلیو ٹی او) میں بھارت کے ایک سابق سفیر جیانت داس گپتا نے اس بارے میں اپنے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے بھارت کے لیے اس ترجیحی تجارتی حیثیت کے خاتمے کے بعد نقصان بھارت کا ہی ہو گا۔
داس گپتا نے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکا کے اس اقدام سے بھارت میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے صنعتی اداروں کی برآمدات متاثر ہوں گی۔
م م / ع ت / ڈی پی اے
دنیا میں سب سے زیادہ گاڑیاں کہاں استعمال کی جاتی ہیں؟
کار ساز اداروں کی عالمی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق یورپ اور بر اعظم امریکا میں قریب چار لاکھ، جب کہ ایشیا میں چار لاکھ چھتیس ہزار گاڑیاں رجسٹر کی گئیں۔ کن ممالک میں گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہے؟ جانیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa
۱۔ امریکا
دنیا میں سب سے زیادہ شہریوں کے پاس گاڑیاں امریکا میں ہیں۔ تعداد کے اعتبار سے ایک ہزار امریکی شہریوں میں سے 821 کے پاس گاڑیاں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. C. Hong
۲۔ نیوزی لینڈ
گاڑیوں کی تعداد کے اعتبار سے اس فہرست میں دوسرا نمبر نیوزی لینڈ کا ہے جہاں فی ایک ہزار نفوس 819 گاڑیاں پائی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
۳۔ آئس لینڈ
تین ملین نفوس پر مشتمل یورپ کا جزیرہ ملک آئس لینڈ گاڑیوں کے تناسب کے اعتبار سے یہ یورپ میں پہلے اور دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جہاں فی ہزار شہری 796 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
۴۔ مالٹا
چوتھے نمبر پر بھی ایک چھوٹا سا یورپی ملک مالٹا ہے اور یہاں فی ایک ہزار شہری 775 گاڑیاں بنتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Schulze
۵۔ لکسمبرگ
یورپی ملک لکسمبرگ اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں فی ایک ہزار نفوس 745 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: DW/M. M. Rahman
۶۔ آسٹریلیا
چھٹے نمبر آسٹریلیا کا ہے جہاں ایک ہزار شہریوں میں سے 718 کے پاس گاڑیاں ہیں۔
تصویر: M. Dadswell/Getty Images
۷۔ برونائی دار السلام
چالیس لاکھ نفوس پر مشتمل اس ایشیائی ملک میں اکہتر فیصد (یعنی 711 گاڑیاں فی یک ہزار شہری) عوام کے پاس گاڑیاں ہیں۔ یوں وہ اس اعتبار سے مسلم اکثریتی ممالک اور ایشیا میں پہلے جب کہ دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Rahman
۸۔ اٹلی
اٹلی بھی اس عالمی درجہ بندی میں ٹاپ ٹین ممالک میں آٹھویں نمبر ہے جہاں فی ایک ہزار شہری 706 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
۹۔ کینیڈا
کینیڈا میں ایک ہزار افراد میں سے 646 کے پاس گاڑیاں ہیں اور وہ اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
۱۰۔ پولینڈ
پولینڈ میں فی ایک ہزار نفوس 628 گاڑیاں پائی جاتی ہیں اور یوں وہ یورپی یونین میں چوتھے اور عالمی سطح پر دسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/J. Arriens
جاپان
جاپانی گاڑیاں بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں اور اس ملک کے اپنے ایک ہزار شہریوں میں سے 609 کے پاس گاڑیاں ہیں۔ یوں عالمی سطح پر جاپان تیرہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/Y. Tsuno
جرمنی
جرمنی بھی گاڑیاں بنانے والے اہم ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے لیکن فی ایک ہزار شہری 593 گاڑیوں کے ساتھ اس فہرست میں جرمنی سترہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
روس
روس ہتھیاروں کی دوڑ میں تو اب دوبارہ نمایاں ہو رہا ہے لیکن اس فہرست میں وہ انچاسویں نمبر پر ہے اور یہاں فی ایک ہزار شہری گاڑیوں کی تعداد 358 بنتی ہے۔
اقتصادی طور پر تیزی سے عالمی طاقت بنتے ہوئے اس ملک میں ایک ہزار نفوس میں سے 118 کے پاس گاڑیاں ہیں۔ چین اس اعتبار سے عالمی درجہ بندی میں 89ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/Imaginechina/J. Haixin
بھارت
آبادی کے اعتبار سے دنیا کے اس دوسرے سب سے بڑے ملک میں فی ایک ہزار شہری 22 گاڑیاں ہیں اور عالمی درجہ بندی میں بھارت 122ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں ایک سو پچیسویں نمبر پر ہے اور کار ساز اداروں کی عالمی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق یہاں فی ایک ہزار شہری 17 گاڑیاں ہیں۔