ایرانی سپریم رہنما نے امریکا کے ایران کے ساتھ عالمی جوہری ڈیل سے الگ ہو جانے کو ’ایک غلطی‘ قرار دیا ہے۔ ادھر محافظینِ انقلابِ ایران کے سربراہ نے کہا ہے کہ اس ڈیل پر عمل پیرا رہنے کے حوالے سے یورپ پر شک کیا جا سکتا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے بدھ کے روز ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای کے حوالے سے بتایا کہ امریکا کی طرف سے عالمی جوہری ڈیل سے دستبرداری کا فیصلہ اس کی ’ایک غلطی‘ ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ٹرمپ نے ایرانی عوام اور حکومت کو دھمکایا ہے، جو ان کی ایک غلطی ہے۔‘‘
خامنہ ای نے عالمی وقت کے مطابق منگل کی رات کی گئی ٹرمپ کی تقریر کو ’بے وقوفانہ اور سطحی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ نے اپنی اس تقریر میں غالباﹰ کم از کم دس جھوٹ بولے۔ خامنہ ای کے بقول اگر یورپی ممالک کی طرف سے ٹھوس ضمانت نہیں دی جاتی تو ایران بھی اس ڈیل پر عمل پیرا نہیں رہے گا۔
امریکا کی طرف سے اس جوہری ڈیل سے الگ ہونے کے باوجود یورپی ممالک نے کہا ہے کہ وہ اس ڈیل پر کاربند رہیں گے۔ بدھ کے دن ہی جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ایران اور عالمی طاقتوں کی ڈٰیل فعال ہے۔
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟
دنیا بھر میں اس وقت نو ممالک کے پاس قریب سولہ ہزار تین سو ایٹم بم ہیں۔ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے مطالبات کے باوجود یہ تعداد کم نہیں ہو رہی۔ دیکھتے ہیں کہ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: AP
روس
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kolesnikova
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 7300 ایٹم بم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kaminski
پاکستان
پاکستان کے پاس ایک سو سے ایک سو بیس کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سن 1998ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اسلام آباد حکومت کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
تاہم ایران کے ریوولیوشنری گارڈز(محافظینِ انقلابِ ایران) کے سربراہ جنرل محمد علی جعفری کا کہنا ہے کہ امریکا کی طرف سے دستبرداری کے بعد یورپی ممالک کے ایران اور عالمی طاقتوں کی ڈیل پر عمل پیرا رہنے کے حوالے سے شکوک موجود ہیں، کیونکہ یورپی ممالک اور امریکا دراصل ایک دوسرے کے قریبی اتحادی ہیں۔ منگل کے دن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن دو ہزار پندرہ میں طے پانے والی اس ڈیل سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔
جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے واشنگٹن حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ ایسا کوئی قدم نہ اٹھائے، جس کے باعث دوسرے ایسے ممالک کے لیے مشکلات پیدا ہوں، جو اس عالمی جوہری ڈیل پر عمل پیرا رہنا چاہتے ہیں۔ تاہم ٹرمپ کے مطابق یہ ڈیل امریکا کے مفاد میں نہیں ہے اور اس لیے اس پر مزید عمل درآمد جاری نہیں رکھا جا سکتا۔
اگرچہ یورپی ممالک نے اس پیشرفت کے بعد بھی کہا ہے کہ وہ اس جوہری معاہدے پر عمل پیرا رہیں گے تاہم جنرل محمد علی جعفری کے مطابق یورپی ممالک اس تناظر میں اکیلے کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے ہیں۔
فارس ںیوز ایجنسی نے محافظینِ انقلابِ ایران کے سربراہ جنرل محمد علی جعفری کا حوالہ دیتے ہوئے بدھ کو لکھا، ’’یہ واضح ہے کہ ایران اور امریکا میں سے کسی ایک کو چننے کے حوالے سے یورپی ممالک غیرجانبدارانہ فیصلہ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ تو امریکا سے بندھے ہوئے ہیں۔‘‘
اس عالمی جوہری ڈیل کے تحت ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کر چکا ہے، جس کے جواب میں تہران پر عائد عالمی پابندیوں کو نرم یا ختم بھی کیا جا چکا ہے۔ تاہم اب امریکا کے اس ڈیل سے الگ ہونے کے بعد واشنگٹن حکومت ایران کے خلاف اپنی معطل شدہ پابندیاں بحال کر چکی ہے۔
دوسری طرف پیرس میں فرانسیسی حکومت نے بدھ ہی کے دن بتایا کہ اس نئی صورتحال میں فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے نمائندے آئندہ ہفتے ایرانی حکام سے ملاقات کریں گے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ نے ایک مقامی ریڈیو سے گفتگو میں کہا کہ پیر کے دن وہ جرمنی اور برطانیہ کے سفارتکاروں سے ملیں گے اور ساتھ ہی ایرانی حکومتی نمائندوں سے بھی ملاقات کریں گے۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ایک ’نفسیاتی جنگ‘ کر رہے ہیں اور اس تناطر میں ایران یورنیم کی افزدوگی کا عمل شروع کر دے گا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اس سے قبل وہ اس ڈیل کے دیگر فریقین یعنی یورپی ممالک سے بھی مشاورت ضرور کریں گے۔
ع ب / م م / روئٹرز
ایرانی انقلاب سے لے کر اب تک کے اہم واقعات، مختصر تاریخ
جنوری سن 1979 میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی تحریک کے بعد ایرانی بادشاہ محمد رضا پہلوی کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ تب سے اب تک ایرانی تاریخ کے کچھ اہم واقعات پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: takhtejamshidcup
16 جنوری 1979
کئی ماہ تک جاری مظاہروں کے بعد امریکی حمایت یافتہ رضا پہلوی ایران چھوڑ کر چلے گئے۔ یکم فروری کے روز آیت اللہ خمینی واپس ایران پہنچے اور یکم اپریل سن 1979 کو اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP/G. Duval
4 نومبر 1979
اس روز خمینی کے حامی ایرانی طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ کر کے 52 امریکیوں کو یرغمال بنا لیا۔ طلبا کا یہ گروہ امریکا سے رضا پہلوی کی ایران واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان مغویوں کو 444 دن بعد اکیس جنوری سن 1981 کو رہائی ملی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/M. Lipchitz
22 ستمبر 1980
عراقی فوجوں نے ایران پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ آٹھ برس تک جاری رہی اور کم از کم ایک ملین انسان ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے بیس اگست سن 1988 کے روز جنگ بندی عمل میں آئی۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
3 جون 1989
خمینی انتقال کر گئے اور ان کی جگہ علی خامنہ ای کو سپریم لیڈر بنا دیا گیا۔ خامنہ سن 1981 سے صدر کے عہدے پر براجمان تھے۔ صدر کا انتخاب نسبتا روشن خیال اکبر ہاشمی رفسنجانی نے جیتا اور وہ سن 1993 میں دوبارہ صدارتی انتخابات بھی جیت گئے۔ رفسنجانی نے بطور صدر زیادہ توجہ ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد ملکی تعمیر نو پر دی۔
تصویر: Fararu.com
23 مئی 1997
رفسنجانی کے اصلاح پسند جانشین محمد خاتمی قدامت پسندوں کو شکست دے کر ملکی صدر منتخب ہوئے۔ وہ دوبارہ سن 2001 دوسری مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہوئے۔ انہی کے دور اقتدار میں ہزاروں ایرانی طلبا نے ملک میں سیکولر جمہوری اقدار کے لیے مظاہرے کیے۔ سن 1999 میں ہونے والے ان مظاہروں میں کئی طلبا ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: ISNA
29 جنوری 2002
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر نے ایران کو عراق اور شمالی کوریا کے ساتھ ’بدی کا محور‘ قرار دیا۔ امریکا نے ایران پر مکمل تجارتی اور اقتصادی پابندیاں سن 1995 ہی سے عائد کر رکھی تھیں۔
تصویر: Getty Images
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Fars
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Reuters/Tima
جنوری 2016
خطے میں ایرانی حریف سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جس کا سبب ایران کی جانب سے سعودی عرب میں شیعہ رہنما شیخ نمر کو پھانسی دیے جانے پر تنقید تھی۔ سعودی عرب نے ایران پر شام اور یمن سمیت عرب ممالک کے معاملات میں مداخلت کا الزام بھی عائد کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
19 مئی 2017
اصلاح پسند حلقوں اور نوجوانوں کی حمایت سے حسن روحانی دوبارہ ایرانی صدر منتخب ہوئے اور اسی برس نئے امریکی صدر ٹرمپ نے جوہری معاہدے کی ’تصدیق‘ سے انکار کیا۔ حسن روحانی پر اصلاحات کے وعدے پورے نہ کرنے پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا اور اٹھائیس دسمبر کو پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے جن میں اکیس ایرانی شہری ہلاک ہوئے۔