امریکا نے فلسطین کے لیے 65 ملین ڈالر کی امداد روک دی
شمشیر حیدر AP/AFP/dpa
17 جنوری 2018
امریکا نے اقوام متحدہ کے فلسطین کے لیے مختص ادارے UNRWA کو 65 ملین ڈالر امداد کی فراہمی روک دی ہے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد فلسطینی حکام پر دباؤ ڈالنا نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے اس ادارے میں اصلاحات لانا ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کی ریفیوجی ایجنسی کا یہ ذیلی ادارہ فلسطینی علاقوں کے عوام کے علاوہ اردن، لبنان اور شام میں مقیم فلسطینی مہاجرین کو تعلیم، صحت اور دیگر معاشرتی امور میں معاونت فراہم کرتا ہے۔ امریکا اس عالمی ادارے کو فنڈنگ فراہم کرنے والا ایک اہم ملک رہا ہے اور سن 2018 میں بھی امریکا نے اس ادارے کو 125 ملین ڈالر فراہم کرنا تھے۔
تاہم اب امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ رواں برس امریکا 65 ملین ڈالر امداد کی فراہمی روک رہا ہے اور UNRWA کو صرف 60 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی جائے گی۔ امریکی محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان ہیتھر نوئیرٹ کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد ’’امریکی امداد کی فراہمی روکنے کا مقصد کسی کو سزا دینا یا دباؤ ڈالنا نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے اصرار کیا کہ امريکی اقدام کا مقصد اقوام متحدہ کے اس ادارے میں اصلاحات لانا اور دیگر ممالک پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ بھی فلسطینیوں کی امداد کے لیے اس ادارے کو وسائل فراہم کریں۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔
امریکی حکام کی اس وضاحت کے باوجود یہ بھی واضح ہے کہ صدر ٹرمپ یروشلم کے معاملے پر فلسطینی ردِ عمل سامنے آنے کے بعد سے فلسطین کو مالی امداد کی فراہمی روکنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ رواں برس کے آغاز پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مائیکرو بلاگنگ سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں لکھا تھا، ’’صرف پاکستان ہی ایسا ملک نہیں ہے جسے ہم اربوں ڈالر امداد دیتے ہیں اور اس کے عوض ہمیں کچھ نہیں ملتا بلکہ ایسے کئی اور ممالک بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ہم فلسطینیوں کو سینکڑوں ملین ڈالر فراہم کرتے ہيں اور اس کے باجود وہ نہ تو اس عمل کو سراہتے ہیں اور نہ ہی ہماری عزت کرتے ہیں۔ بلکہ وہ تو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے لیے مذاکرات پر بھی آمادہ نہیں۔‘‘
امریکی دفتر خارجہ کی خاتون ترجمان کا بھی کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی بہبود کے لیے مختص اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے میں اصلاحات کی شدید ضرورت ہے اور اس ادارے کو وہ ممالک بھی مالی معاونت فراہم نہیں کرتے جو امریکا کے یروشلم سے متعلق فیصلے پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل انٹونيو گوٹيريش نے امریکی فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئےکہا، ’’سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یو این آر ڈبلیو اے فلسطینی ادارہ نہیں بلکہ ایک عالمی ادارہ ہے۔‘‘ گوٹیریش کا کہنا تھا کہ اگر یہ ادارہ فلسطینیوں کو درکار ناگزیر سہولیات فراہم نہ کر پایا تو اس سے ’انتہائی سنجیدہ مسائل‘ پیدا ہو سکتے ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس کی تنظیم پی ایل او کے ایک سینئر رکن حنان اشروی نے امریکی فیصلے پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا، ’’امریکی انتظامیہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی ان ہدایات پر عمل کر رہی ہے، جن میں نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کے اس ادارے کو، جسے عالمی برادری نے فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے تشکیل دیا تھا، ختم کر دینے کی ضرورت ہے۔‘‘
امریکا سن 1949 سے یو این آر ڈبلیو اے کو مالی معاونت فراہم کر رہا ہے اور ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2016 میں ادارے کا مجموعی بجٹ 1.2 ارب ڈالر تھا جس میں سے امریکا نے 368 ملین ڈالر فراہم کیے تھے۔
یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ آج اسرائیلی وزیر اعظم نے بھی واشنگٹن انتظامیہ کے اس نئے فیصلیے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا رواں برس کے اندر اندر اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کر دے گا۔
پچاس برس قبل عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ تفصیلات اس پکچر گیلری میں
تصویر: AFP/Getty Images
اسرائیلی فوج نے حملے کے بعد تیزی کے ساتھ پیش قدمی کی
پانچ جون کو اسرائیلی فوج نے مختلف محاذوں پر حملہ کر کے عرب افواج کی اگلی صفوں کا صفایا کر دیا تا کہ اُسے پیش قدمی میں مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
اسرائیلی فوج نے حملے میں پہل کی تھی
عالمی برادری اور خاص طور پر امریکا اِس جنگ کا مخالف تھا اور اُس نے واضح کیا کہ جو پہلے حملہ کرے گا وہی نتائج کا ذمہ دار ہو گا مگر اسرائیلی فوجی کمانڈروں کا خیال تھا کہ حملے میں پہل کرنے کی صورت میں جنگ جیتی جا سکتی ہے۔
تصویر: Keystone/ZUMA/IMAGO
مشرقی یروشلم پر بھی اسرائیل قابض ہو گیا
اسرائیلی فوج کے شیرمین ٹینک دس جون سن 1967 کو مشرقی یروشلم میں گشت کرتے دیکھے گئے تھے۔ شیرمین ٹینک امریکی ساختہ تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Guillaud
چھ روز جنگ میں اسرائیلی فوج کو فتح حاصل ہوئی
اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کا کئی علاقوں پر قبضہ، پھر اُن کا اسرائیل میں انضمام اور دنیا کے مقدس ترین مقامات کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں پیدا تنازعہ مزید شدت ہو گیا۔
تصویر: Imago/Keystone
عرب افواج کے جنگی قیدی
پچاس برس قبل اسرائیلی فوج نے حملہ کرتے ہوئے عرب ممالک کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا اور بے شمار فوجیوں کو جنگی قیدی بنا لیا۔
تصویر: David Rubinger/KEYSTONE/AP/picture alliance
جزیرہ نما سینائی میں اسرائیلی فوج کی کامیاب پیش قدمی
مصر کے علاقے جزیرہ نما سینائی میں مصری افواج اسرائیل کے اجانک حملے کا سامنا نہیں کر سکی۔ بے شمار فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اسرائیلی فوج نے مصری فوج کی جانب سے خلیج تیران کی ناکہ بندی کو بھی ختم کر دیا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
ہر محاذ پر عرب ممالک کو پسپائی کا سامنا رہا
غزہ پٹی پر قبضے کے بعد ہتھیار پھینک دینے والے فوجیوں کی پہلے شناخت کی گسی اور پھر اسرائیلی فوج نے چھان بین کا عمل مکمل کیا گیا۔