امریکا نے کہا ہے کہ ایران سے ممکنہ خطرات کے پیش نظر مشرق وسطیٰ میں عسکری موجودگی بڑھائی جا رہی ہے۔ یہ پیشرفت ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے، جب ایران نے عالمی جوہری ڈیل کی کچھ شقوں سے دستبردار ہونے کا عندیہ دیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے امریکی محمکہ دفاع پینٹا گون کے حوالے سے بتایا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں فوجی موجودگی بڑھائی جائے گی تاکہ ایران سے لاحق ممکنہ خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ امریکا کے اس بیان سے خطے میں ایک نئی کشیدگی پیدا ہو گئی اور ایرانی سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں کی طرف سے مبینہ جوابی بیانات بھی دیے جا رہے ہیں۔
جمعے کے دن ہی پینٹا گون نے اعلان کیا کہ ایئر کرافٹ فورس کی حفاظت کی خاطر مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی اڈوں پر پیٹریاٹ میزائل بیٹریاں نصب کی جائیں گی اور ساتھ ہی جدید طرز کا ایک حملہ آور بحری جہاز بھی روانہ کیا جائے گا، جو پانی اور خشکی میں حملوں کی صلاحیت رکھتا ہے۔
امریکا نے بتایا ہے ایسی خبریں موصول ہوئی ہیں کہ ایران خطے میں حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، اسی لیے یہ تیاری کی جا رہی ہے۔ پینٹا گون کے مطابق نئی عسکری کمک یو ایس ایس ابراہم لنکن کیریئر اسٹرائیک گروپ کا حصہ ہو گی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان فوجی تنصیبات میں ایک B-52 بمبار اسکواڈرن کی خلیج میں تعیناتی بھی شامل ہے۔
پینٹا گون کی طرف سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق ایران کی طرف سے خطے میں امریکی فورسز اور مفادات پر حملوں کی تیاری کے جواب میں یہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مزید کہا گیا کہ امریکی محکمہ دفاع خطے میں ایران کی تمام تر سرگرمیوں کا بغور مشاہدہ کر رہا ہے۔ اس بیان کے مطابق امریکا اس خطے میں ایران کے ساتھ براہ راست کوئی تنازعہ نہیں چاہتا لیکن کسی ممکنہ حملے کی صورت میں امریکی فورسز مکمل طور پر تیار ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں عسکری موجودگی بڑھاتے ہوئے ایران کو واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ خطے میں امریکا یا اس کے کسی اتحادی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرے۔
ایران اور امریکا کے مابین یہ نئی کشیدگی ایک ایسے وقت میں شروع ہوئی جب ایران نے خبردار کیا ہے کہ وہ سن دو ہزار پندرہ میں طے پانے والی عالمی جوہری ڈیل کی کچھ شقوں سے دستبردار ہو سکتا ہے۔ اس تناظر ميں ایران کی جانب سے ڈیل پر دستخط کرنے والے ممالک برطانيہ، چين، فرانس، جرمنی اور يورپی يونين کو خطوط لکھ کر باضابطہ طور پر بدھ آٹھ مئی کو مطلع کیا گیا تھا۔
تہران حکومت نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ جوہری ڈیل کے دائرہ کار سے باہر نہیں نکلے گی اور اس کی بنیادی شرائط احترام جاری رکھا جائے گا۔ ایرانی حکومت بعض ایسی جوہری سرگرمیوں کو شروع کرنے کی خواہش رکھتی ہے جو اُس نے رضاکارانہ طور پر معطل کر رکھی تھیں۔
ع ب / ع ح / خبر رساں ادارے
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟
دنیا بھر میں اس وقت نو ممالک کے پاس قریب سولہ ہزار تین سو ایٹم بم ہیں۔ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے مطالبات کے باوجود یہ تعداد کم نہیں ہو رہی۔ دیکھتے ہیں کہ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: AP
روس
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kolesnikova
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 7300 ایٹم بم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kaminski
پاکستان
پاکستان کے پاس ایک سو سے ایک سو بیس کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سن 1998ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اسلام آباد حکومت کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔