امریکا نے میانمار کے فوجی رہنماوں پر پابندیاں عائد کردیں
11 فروری 2021
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ اگر میانمار کی فوجی قیادت اپنے اختیارات سے 'دست بردار‘ نہیں ہوئی اور جمہوری طورپر منتخب رہنماوں کو رہا نہ کیا تو امریکا ایک ارب ڈالر کے اثاثوں تک ان کی رسائی روک دے گا۔
اشتہار
امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز ایک حکم نامہ جاری کرکے میانمار کی فوجی حکومت پر پابندیاں عائد کردیں، جس نے اس ماہ کے اوائل میں بغاوت کرکے ملک میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کو برطرف کر دیا تھا۔
بائیڈن نے کہا”فوج اس اقتدار سے دست بردار ہوجائے جس پر اس نے قبضہ کیا ہے اور برما کے عوام کے تئیں احترام کا مظاہرہ کرے۔" برما، میانمار کا پرانا نام ہے۔
انہوں نے مزید کہا”میں برمی فوج سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ آنگ سان سوچی اور صدر ون مائنٹ سمیت گرفتار دیگر تمام جمہوری سیاسی رہنماوں اور کارکنوں کو فورا ً رہا کرے۔"
بائیڈن کے حکم کے بعد میانمار کے فوجی جرنیلوں کی امریکا میں موجود ایک ارب ڈالر تک رسائی نہیں ہوسکے گی۔ پابندیوں کے متعلق مزید تفصیلات اس ہفتے بعد میں جاری کی جائیں گی۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ ان پابندیوں کے تحت ”بغاوت کی رہنمائی کرنے والے فوجی رہنماوں، ان کے تجارتی مفادات اور ان کے قریبی رشتہ داروں" کو ہدف بنا یا گیا ہے۔
آنگ سان سوچی کی سیاست اور میانمار کی فوج کا کردار
میانمار میں فوجی بغاوت اور سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کی حراست پر عالمی برادری سخت الفاظ میں مذمت کر رہی ہے۔ تاہم ماضی میں سوچی پر ملکی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے دوران خاموشی کا الزام بھی رہا ہے۔
تصویر: Sakchai Lalit/AP/picture alliance
فوجی بغاوت کے بعد سوچی زیر حراست
پیر یکم فروری 2021ء کے روز میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ یہ اقدام جمہوری حکومت اور فوج میں کشیدگی کے بڑھنے کے بعد سامنے آئے۔ میانمارکی فوج نے گزشتہ نومبر کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک برس کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور سابق فوجی جنرل کو صدر کے لیے نامزد کر دیا۔
تصویر: Franck Robichon/REUTERS
نومبر 2020ء میں متنازعہ عام انتخابات
آنگ سان سوچی کی حکمران جماعت این ایل ڈی نے گزشتہ برس آٹھ نومبر کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم میانمار کی فوج کی حمایت یافتہ جماعت یونین سولیڈیرٹی اور ڈولپمنٹ پارٹی نے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے فوج کی نگرانی میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ممکنہ بغاوت کی چہ مگوئیاں شروع ہوگئی۔
تصویر: Shwe Paw Mya Tin/REUTERS
روہنگیا کے خلاف فوجی آپریشن اور سوچی کی خاموشی
روہنگیا مسلمانوں کی نسل کا تعلق اُس گروہ سے ہے جن کی شہریت کو سن انیس سو بیاسی کی بدھ مت اکثریت رکھنے والی حکومت نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ طویل عرصے سے زیر عتاب رہنے والے ان مسلمانوں کی حالت اس وقت مزید دگرگوں ہو گئی جب دو ہزار سولہ میں میانمار کی فوج کی جانب سے ’غیر قانونی مہاجرین سے نجات‘ کی مہم شروع ہوئی جسے بین الاقوامی برادری کی جانب سے نسل کشی قرار دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/K. Huda
اعزازات واپس لیے جانے کا سلسلہ
سوچی کی جانب سے جانبدارانہ بیانات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر خاموشی نے اُنہیں کئی بین الاقوامی اعزازات سے محروم کر دیا۔ یہاں تک کہ ان سے امن کا نوبل انعام واپس لیے جانے کا تقاضہ بھی زور پکڑ گیا۔ تاہم نوبل کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اعزاز واپس نہیں لے سکتے۔ تاہم دیگر کئی بین الاقوامی اعزازات سوچی سے واپس لے لیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رو بہ زوال
سن دو ہزار سولہ میں اسٹیٹ کونسلر منتخب ہونے کے بعد سوچی نے ایک کمیشن تشکیل دیا جس کا مقصد راکھین میں روہنگیا کے خلاف ہونے والے مظالم کے دعووں کی تحقیقات کرنا تھا۔ سوچی نے روہنگیا اقلیت پر الزام عائد کیا کہ وہ گمراہ کن اطلاعات پھیلا رہے ہیں اور وہ انتہا پسندوں کی جانب سے لاحق خطرات پر فکر مند ہیں۔ ان کے اس نقطہ نظر پر بڑے پیمانے پر دنیا کے مسلم اکثریتی ممالک میں احتجاج کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/J. Laghari
فوجی حکومت کے زیر اثر
اپنے ملک واپسی کے بعد سن1989 سے سن 2010 کے درمیان یعنی اکیس میں سے پندرہ برس وہ اپنے ہی گھر میں نظر بند رہیں۔ سن انیس سو پچانوے کے بعد ان کو اپنے بیٹوں اور شوہر سے ملاقات پر پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Longstreath
بطور قانون ساز حلف برداری
آخر کار کئی دہائیوں تک جاری جدوجہد میں سوچی کو کامیابی ہوئی اور انہیں سن 2012 کے آزاد انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔ اس وقت میانمار کی فوجی حکومت سے جمہوریت کی جانب اقتدار کی منتقلی کے عمل کی ابتدا ہوئی تھی اور اسی دوران سوچی کو پارلیمان میں نشست حاصل ہوئی۔ دو ہزار پندرہ کے عام انتخابات کے بعد سے انہیں ملک کی اصل عوامی رہنما کی حیثیت ملی جبکہ سرکاری طور پر وہ وزیر خارجہ منتخب ہوئیں۔
تصویر: AP
آنگ سان سوچی، ایک فریڈم فائٹر
اپنے ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو کسی بھی حال میں ایک بار پھر بحال کرنے کے عزم پر انہیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔ ان کی شہرت اس حد تک تھی کہ سوچی کی زندگی پر سن دو ہزار گیارہ میں نامور فرانسیسی فلمساز نے فلم بھی تیار کی۔ سوچی کو اکثر دنیا کی سب سے مشہور سیاسی قیدی پکارا جاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/Seven Media/Doha Film Institute
جمہوریت کی ہردلعزیز شخصیت
میانمار کے مقتول بانی کی بیٹی،سوچی، انگلستان سے تعلیم مکمل کر کے سن 1980 میں اپنے وطن واپس لوٹیں۔ سن 1988 میں ملک میں فوجی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف ہونے والی بغاوت میں انہیں کلیدی حیثیت حاصل رہی۔ سن 1990 کےانتخابات میں ان کی سیاسی جماعت، نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی فاتح رہی تاہم اس وقت کی حکومت نے انہیں ملنے والے مینڈیٹ کو رد کر دیا۔
تصویر: dapd
9 تصاویر1 | 9
بائیڈن نے وائٹ ہاوس میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”ہم مزید پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہیں اوران اقدامات میں دیگر ملکوں کو بھی شامل کرنے کے لیے اپنے بین الاقوامی شرکاء کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ نئی پابندیوں سے میانمار کی فوج امریکی اثاثوں سے ہونے والے فائدے سے محروم ہوجائے گی لیکن صحت کی دیکھ بھال اور سول سوسائٹی گروپوں کی مدد کا سلسلہ جاری رہے گا۔
بین الاقوامی ردعمل
میانمار کے فوجی سربراہ جنرل منگ آنگ لینگ سمیت کئی اہم فوجی رہنماوں پر روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کی وجہ سے سن 2019 سے ہی امریکی پابندیاں عائد ہیں۔ اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار حکومت کی کارروائی کو نسل کشی قرار دیا ہے۔
امریکا نے 1998میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف کارروائی کی وجہ سے بھی میانمار کی فوج پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔
میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف نوجوان شہریوں کا احتجاج
03:55
جمہوری طور پر منتخب حکومت کو برطرف کرکے فوج کے اقتدار پر قبضہ کرلینے کے تازہ واقعے کی دنیا بھر میں مذمت ہوئی ہے تاہم دیکھنا ہوگا کہ نئی پابندیوں کا کیا اثر پڑتا ہے۔
وائٹ ہاوس کی پریس سکریٹری جین ساکی نے بائیڈن کے اعلان سے قبل کہا تھا”اس میں دو رائے نہیں کہ میانمار کے فوجی اقتدار کے خلاف ایک مربوط کارروائی کی ضرورت ہے۔"
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ امریکا اپنے شرکاء اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر برمی جنرلوں پر مزید دباو ڈال سکتا ہے۔
اس دوران میانمار کی صورت حال پر غور کرنے کے لیے اقو ام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے جمعرات 11 فروری کو ایک خصوصی اجلاس طلب کیا ہے۔
ج ا / ص ز (اے پی، اے ایف پی)
’’تعلیم سب کے لیے ہے تو روہنگیا کے لیے کیوں نہیں؟‘‘