امریکا نے واشنگٹن میں فلسطینی مشن بند کرنے کی تصدیق کر دی
10 ستمبر 2018
امریکی دفتر خارجہ نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ واشنگٹن میں قائم فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کا دفتر بند کرنے کے احکامات دیے جا رہے ہیں۔ اسرائیل کی حمایت میں کیا جانے والا یہ تازہ ترین امریکی اقدام ہے۔
اشتہار
امریکی دفتر خارجہ کی خاتون ترجمان ہیتھر نوئرٹ کے بقول پی ایل او کو ایسے اقدامات کے لیے دفتر بنانے کی اجازت دی گئی تھی، جن کا مقصد اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان دیرپا اور مکمل امن قائم کرنا ہو۔ ان کے مطابق فلسطینی حکام اسرائیل کے ساتھ براہ راست اور با معنی مذاکرات کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کر رہے، جس کی وجہ سے یہ مشن بند کیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ برس ہی فلسطینی حکام کو یہ پیغام دے دیا تھا کہ اگر اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا آغاز نہ کیا گیا تو واشنگٹن میں ان کا مشن دفتر بند کر دیا جائے گا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے تین سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس کا باقاعدہ اعلان صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن آج پیر کے روز کرنے والے ہیں۔
فلسطینی عہدیدار صائب ایریکات نے اس امریکی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے، ’’یہ مزید ایک تصدیق ہو گئی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ تمام فلسطینیوں کو سزا دینے کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان پالیسیوں میں صحت، تعلیم اور انسانی خدمات کے لیے مالی امداد کی کٹوتی جیسی پالیسیاں شامل ہیں۔‘‘
فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کو تمام فلسطینیوں کی نمائندہ جماعت سمجھا جاتا ہے۔ امریکا فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود اس نے پی ایل او کو واشنگٹن میں ایک سفارتی عمارت فراہم کر رکھی ہے تاکہ فلسطینی حکام کے ساتھ مذاکراتی عمل جاری رہے۔
واشنگٹن میں پی ایل او کے وفد کے سربراہ حسام زیڈ نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ فلسطین کے حوالے سے ’عشروں پرانے امریکی وژن اور رابطوں کو تار تار‘ کر دینا چاہتی ہے۔ فلسطینی سفیر حسام زیڈ کا کہنا تھا، ’’سیاسی بلیک میلنگ کے لیے انسانی حقوق اور ترقیاتی امداد کو استعمال کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘
ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آنے کے بعد سے فلسطینیوں کو متعدد دھچکے پہنچا چکے ہیں۔ حال ہی میں ٹرمپ انتظامیہ نے اقوام متحدہ کے اس ادارے کی مالی امداد بند کر دی تھی، جو فلسطینی مہاجرین کو امداد فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح یروشلم میں ان ہسپتالوں کی امداد بھی بند کر دی گئی ہے، جو فلسطینیوں کو خدمات فراہم کرتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے متنازعہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ بھی وہاں منتقل کر دیا تھا۔ جس کے بعد احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور درجنوں فلسطینی مارے گئے تھے۔
ٹرمپ نے فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین ایک ’حتمی معاہدہ‘ کروانے کا وعدہ کر رکھا ہے۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔