امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ امریکا ایران کے ’انقلابی گارڈز‘ کو ایک ’غیر ملکی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دے رہا ہے۔ اس فیصلے کا مقصد ایران کے خلاف دباؤ میں مزید اضافہ کرنا بتایا گیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا نے کسی اور حکومت کے ایک حصے کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ اس پیشرفت میں پاسداران انقلاب کے خلاف پابندیاں بھی شامل ہیں جن میں ’اسلامی ریوولوشنری گارڈز کور‘ (IRGC) یا ’سپاه پاسداران انقلاب اسلامی‘ کے ان اثاثہ جات کو منجمد کرنا جو امریکی عملداری میں آتے ہیں یا پھر امریکی کمپنیوں کی طرف سے انقلابی گارڈز کے ساتھ کسی طرح کا کاروباری پر پابندی شامل ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق، ’’وزارت خارجہ کی طرف سے کیے گئے اس بے نظیر اقدام کا مقصد اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ ایران نہ صرف ایک ایسی ریاست ہے جو دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے، بلکہ پاسداران انقلاب دہشت گردی کو بڑھانے اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے علاوہ اسے ایک ریاستی آلے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔‘‘
ایران نے امریکی فوج کو ’دہشت گرد گروپ‘ قرار دے دیا
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایران کی اعلیٰ ترین سکیورٹی کونسل نے امریکی فیصلے کے رد عمل میں امریکی فوج کو ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دے دیا ہے۔
ایرانی سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق، ’’ایران کی سپریم نیشنل کونسل نے امریکی ملٹری فورسز کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔‘‘
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے گزشتہ روز یعنی اتوار سات اپریل کو بظاہر صدر ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ’اس سے زیادہ اور بہتر معلومات ہونا چاہییں، بجائے اس کے کہ وہ امریکا کو ایک اور تباہی کی طرف لے جائیں۔‘
اسرائیل اور بحرین کا ’امریکی فیصلے کا خیر مقدم‘
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتین یاہو نے ایران کے ’سپاه پاسداران انقلاب اسلامی‘ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے فیصلے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا ہے۔
نیتن یاہو کو کل منگل کے روز ملک میں ہونے والے انتخابات میں سخت مقابلے کی توقع ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے پر انہوں نے اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں لکھا ہے کہ یہ فیصلہ، ’’ہمارے ممالک اور خطے کے دیگر ممالک کے حق میں جاتا ہے۔‘‘ بحرینی دفتر خارجہ نے بھی امریکی فیصلے کو خوش آئیند قرار دیتے ہوئے خیر مقدم کیا ہے۔
پاسداران انقلاب کب اور کیوں وجود میں آئی؟
پاسدارانِ انقلاب کی تشکیل انقلاب اسلامی کے فوری بعد سن 1979 میں کی گئی تھی۔ اس کے قیام کا بنیای مقصد اور ذمہ داری ایران کی شیعہ علماء کی حکومت کا تحفظ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دائرہ کار میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ شیعہ علماء کی مخالف سابق بادشاہ رضا شاہ پہلوی کی حامی قوتوں کی سرکوبی کا مشن بھی اب پاسداران انقلاب کے سپرد ہے۔
پاسدارانِ انقلاب کے دائرہ کار میں اضافہ ایرانی اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ العظمیٰ خمینی نے اُس وقت کیا جب عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین نے سن 1980 میں ایران پر فوج کشی کی تھی۔ آیت اللہ خمینی نے اس خصوصی فوج کو زمینی کارروائی کے علاوہ فضائی اور بحری افواج کے دستوں کی تشکیل کا حکم بھی دیا۔ اِس وقت ایران کے میزائل پروگرام پر بھی پاسداران انقلاب کو کنٹرول حاصل ہے۔ بیلسٹک میزائل کے تجربات بھی اس کی ذمہ داری ہے۔
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
سید روح اللہ موسوی خمینی کی قیادت میں مذہبی رہنماؤں نے ٹھیک چالیس برس قبل ایران کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ تب مغرب نواز شاہ کے خلاف عوامی غصے نے خمینی کا سیاسی راستہ آسان کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
احساسات سے عاری
خمینی یکم فروری سن 1979 کو اپنی جلا وطنی ختم کر کے فرانس سے تہران پہنچے تھے۔ تب ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو اس مذہبی رہنما کا جواب تھا، ’’کچھ نہیں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا‘۔ کچھ مبصرین کے مطابق خمینی نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک ’روحانی مشن‘ پر تھے، جہاں جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
شاہ کی بے بسی
خمینی کے وطن واپس پہنچنے سے دو ماہ قبل ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ مختلف شہروں میں تقریبا نو ملین افراد سڑکوں پر نکلے۔ یہ مظاہرے پرامن رہے۔ تب شاہ محمد رضا پہلوی کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ خمینی کی واپسی کو نہیں روک سکتے اور ان کی حکمرانی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
خواتین بھی آگے آگے
ایران میں انقلاب کی خواہش اتنی زیادہ تھی کہ خواتین بھی خمینی کی واپسی کے لیے پرجوش تھیں۔ وہ بھول گئی تھیں کہ جلا وطنی کے دوران ہی خمینی نے خواتین کی آزادی کی خاطر اٹھائے جانے والے شاہ کے اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔ سن 1963 میں ایران کے شاہ نے ہی خواتین کو ووٹ کا حق دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Votava
’بادشاہت غیر اسلامی‘
سن 1971 میں شاہ اور ان کی اہلیہ فرح دیبا (تصویر میں) نے ’تخت جمشید‘ میں شاہی کھنڈرات کے قدیمی مقام پر ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ تب خمینی نے اپنے ایک بیان میں بادشاہت کو ’ظالم، بد اور غیر اسلامی‘ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/akg-images/H. Vassal
جلا وطنی اور آخری سفر
اسلامی انقلاب کے دباؤ کی وجہ سے شاہ چھ جنوری سن 1979 کو ایران چھوڑ گئے۔ مختلف ممالک میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد سرطان میں مبتلا شاہ ستائیس جنوری سن 1980 کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں انتقال کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
طاقت پر قبضہ
ایران میں اسلامی انقلاب کے فوری بعد نئی شیعہ حکومت کے لیے خواتین کے حقوق مسئلہ نہیں تھے۔ ابتدا میں خمینی نے صرف سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا شروع کیا۔
تصویر: Tasnim
’فوج بھی باغی ہو گئی‘
سن 1979 میں جب خمینی واپس ایران پہنچے تو ملکی فوج نے بھی مظاہرین کو نہ روکا۔ گیارہ فروری کو فوجی سربراہ نے اس فوج کو غیرجانبدار قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود انقلابیوں نے فروری اور اپریل میں کئی فوجی جرنلوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPU
نئی اسلامی حکومت
ایران واپسی پر خمینی نے بادشات، حکومت اور پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئی حکومت نامزد کریں گے کیونکہ عوام ان پر یقین رکھتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہرین کے مطابق اس وقت یہ خمینی کی خود التباسی نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
انقلاب کا لبرل رخ
اسکالر اور جمہوریت نواز سرگرم کارکن مہدی بازرگان شاہ حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں آگے آگے تھے۔ خمینی نے انہیں اپنا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا۔ تاہم بازرگان اصل میں خمینی کے بھی مخالف تھے۔ بازرگان نے پیرس میں خمینی سے ملاقات کے بعد انہیں ’پگڑی والا بادشاہ‘ قرار دیا تھا۔ وہ صرف نو ماہ ہی وزیرا عظم رہے۔
تصویر: Iranian.com
امریکی سفارتخانے پر قبضہ
نومبر سن 1979 میں ’انقلابی طالب علموں‘ نے تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ انقلابی خوفزدہ تھے کہ امریکا کی مدد سے شاہ واپس آ سکتے ہیں۔ خمینی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اپنے مخالفین کو ’امریکی اتحادی‘ قرار دے دیا۔
تصویر: Fars
خمینی کا انتقال
کینسر میں مبتلا خمینی تین جون سن 1989 میں چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو تہران میں واقع بہشت زہرہ نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تصویر: tarikhirani.ir
علی خامنہ ای: انقلاب کے رکھوالے
تین جون سن 1989 میں سپریم لیڈر خمینی کے انتقال کے بعد علی خامنہ ای کو نیا رہنما چنا گیا۔ انہتر سالہ خامنہ ای اس وقت ایران میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں اور تمام ریاستی ادارے ان کے تابع ہیں۔