امریکا نے چینی فوج کے ساتھ مبینہ روابط رکھنے پر اسمارٹ فون تیار کرنے والی چینی کمپنی شاومی کارپ اور چین کی تیسری سب سے بڑی سرکاری تیل کمپنی کو بلیک لسٹ کردیا ہے۔
اشتہار
اب جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار کا آخری ہفتہ ہے امریکی حکومت نے پیپلز لبریشن آرمی کے ساتھ مبینہ روابط رکھنے پر چین کی کئی کمپنیوں پر پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ ان میں اسمارٹ فون تیار کرنے والی کمپنی شاومی، سرکاری ملکیت والی طیارہ ساز کمپنی کمرشیئل ایئرکرافٹ کارپوریشن آف چائنا اور تیسری سب سے بڑی قومی تیل کمپنی چائنا نیشنل آف شور آئیل کارپوریشن (سی این اواو سی) شامل ہیں۔
امریکا کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی بحری سرگرمیوں کے مدنظر عائد کی گئی ہیں۔ یہ پیش رفت ایسے وقت ہوئی ہے جب جو بائیڈن صرف پانچ دن بعد امریکی صدارت کا عہدہ سنبھالنے والے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عائد کی جانے والی نئی پابندیوں کا سب سے زیادہ اثر چین کی سرکاری تیل کمپنی، چائنا نیشنل آف شور آئل کارپوریشن (سی این او او سی) پر پڑے گا۔ امریکی محکمہ کامرس نے اس کمپنی کو بلیک لسٹ کرتے ہوئے امریکی شہریوں کی اس کے ساتھ کسی بھی طرح کی تجارت کرنے پر روک لگا دی ہے۔ ایک امریکی عہدیدار کا تاہم کہنا تھا کہ تیل کی تلاش یا ساوتھ چائنا سمندر سے باہر جوائنٹ وینچرز کو پابندیوں کے دائرے میں نہیں رکھا گیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا”امریکا جنوب مشرقی ایشیا کے ان ملکوں کے ساتھ کھڑا ہے جو بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنی خود مختاری اور مفادات کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم یہ کام اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک ہم یہ نہ دیکھ لیں کہ بیجنگ نے ساوتھ چائنا سمندر میں اپنا جابرانہ رویہ ترک کردیا ہے۔"
پومپیو نے کہا کہ یہ پابندیاں ان کے خلاف ہیں جوساوتھ چائنا سمندر میں بڑے پیمانے پر تعمیراتی سرگرمیوں یا متنازعہ چوکیوں کو فوجی چوکیوں میں تبدیل کرنے کے ذمہ دار یا اس میں مددگار ہیں۔ یہ پابندیاں جنوب مشرقی ایشیا کے دعویدار ملکوں کی ساوتھ چائنا سمندر کے وسائل تک رسائی سے محروم رکھنے کے چینی زور زبردستی کے خلاف ہے۔"
چین کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پانچ جملے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے چبھتے ہوئے بیانات کے لیے خاص شہرت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ جملے انہوں نے چین کے لیے بھی کہے۔ ’چین نے امریکا کو تباہ کر دیا‘ کے بیان سے لے کر ’ آئی لو یو چائنہ‘ تک ٹرمپ کے تبصرے رنگا رنگ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
’ آئی لو یو چائنہ‘
سن دو ہزار سولہ میں امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے فوراﹰ بعد ہی ٹرمپ نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا،’’ مجھے چین سے محبت ہے۔‘‘ لیکن جہاں تک بیجنگ حکومت سے متعلق اُن کے تبصروں کا تعلق ہے تو وہ کبھی مثبت نہیں رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Harnik
’ چین ہمارے ملک کا ریپ کر رہا ہے‘
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا چین تعلقات کو بیان کرتے ہوئے ہمیشہ سخت زبان کا استعمال کیا ہے۔
اپنی صدارتی مہم کے دوران ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھا،’’ ہم چین کو اپنا ملک برباد کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے جو وہ کر رہا ہے۔‘‘
تصویر: Feng Li/AFP/GettyImages
’کوریا دراصل چین کا حصہ ہوا کرتا تھا‘
رواں برس اپریل میں چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد وال اسٹریٹ جرنل کو ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا،’’ آپ جانتے ہیں کہ چین اور کوریا کی تاریخ ہزاروں سال اور کئی جنگوں پر محیط ہے۔ کوریا دراصل چین کا حصہ ہوا کرتا تھا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. H. Guan
‘انہیں میکڈونلڈز لے جائیں‘
سن 2015 میں ایک ریلی سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا،’’ اگر آپ سمارٹ ہوں تو چین سے جیت سکتے ہیں لیکن ہمارے لوگوں کو اس کا پتہ نہیں ہے۔ ہم چین کے سربراہان کو سرکاری ڈنر دیتے ہیں۔ ہم انہیں اسٹیٹ ڈنر کیوں دیں؟ میں کہتا ہوں کہ انہیں میکڈونلڈز لے جائیں اور بھر دوبارہ مذاکرات کی میز پر واپس آ جائیں۔‘‘
سن دو ہزار گیارہ میں چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کے ساتھ ایک مبینہ انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا،’’ میں نے چین کے بارے میں سینکڑوں کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔ میں نے چینی لوگوں کے ساتھ بہت روپیہ بنایا ہے۔ میں چینی ذہنیت کو اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘ تاہم بعض افراد کا ماننا ہے کہ یہ انٹرویو کبھی ہوا ہی نہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
’ گلوبل وارمنگ کا ذمہ دار چین ہے‘
سن 2012 میں ٹرمپ نے گلوبل وارمنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ چین نے امریکا کے اقتصادی مفادات کو ضرب لگانے کے لیے یہ منصوبہ بنایا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا،’’ گلوبل وارمنگ کی تخلیق چین کے ہاتھوں اور چینی عوام کے لیے ہوئی تاکہ امریکی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں بے وقعت کیا جا سکے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
6 تصاویر1 | 6
سی این او او سی کو نشانہ بنانے کی وجہ
امریکی محکمہ کامرس نے کہا ”سی این او او سی ساوتھ چائنا سمندر میں تیل اور گیس کی تلاش اور نکالنے والوں کو مسلسل ہراساں کرتا اور دھمکی دیتا رہتا ہے۔"
اشتہار
وزیر کامرس ولبر راس کا کہنا تھا کہ”سی این او او سی چین کے پڑوسیوں کو دھمکانے کے لیے پیپلز لبریشن آرمی کے ہتھیار کے طور پر کام کرتا ہے۔"
امریکی محکمہ کامرس کی طرف سے پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد کسی بھی کمپنی کو امریکی کمپنیوں سے ہائی ٹیک اشیاء برآمد کرنے کے لیے پیشگی لائسنس حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
ایس اینڈپی ڈو جونس نے کہا ہے کہ وہ سی این او او سی کو یکم فروری یا اس سے پہلے اپنی فہرست سے نکال دے گا۔ یہ چینی کمپنیوں میں امریکی شہریوں کو سرمایہ کاری کرنے سے روکنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی وسیع تر مہم کا حصہ ہے۔ چین کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں چائنا ٹیلی کوم، چائنا موبائل اور چائنا یونی کورن کو پیر کے روز ہی تجارتی فہرست سے ہٹا دیا گیا تھا۔
امریکی محکمہ کامرس نے چین کی ایوی ایشن کمپنی اسکائی ری زون کو ملٹری اینڈ یوزر(ایم ای یو) کی فہرست میں شامل کردیا جس کے بعد امریکی برآمدات تک اس کی رسائی محدود ہوجائے گی۔
جن چینی کمپنیوں پر جمعرات کے روز پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں سے کسی نے بھی ابھی تک ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
چین کے 70 برس پر ایک نظر
02:03
ساوتھ چائنا سمندر اہم کیوں ہے؟
چین پورے ساوتھ چائنا سمندر پر اپنا دعوی کرتا ہے جس میں بہت سارے جزائر شامل ہیں۔ تائیوان، فلپائن، برونئی، ملائیشیا اور ویت نام بھی ان جزائر پر اپنا دعوی کرتے ہیں۔
ساوتھ چائنا سمندر ایک اہم تجارتی راستہ ہے اور یہ علاقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ امریکا ایک طویل عرصے سے ساوتھ چائنا سمندر پر چین کے دعوے کی مخالفت کرتا رہا ہے۔
امریکا نے گزشتہ برس ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز کارکنوں کے خلاف کارروائی کرنے پر نیز ساوتھ چائنا سمندر میں سرگرمیوں کی وجہ سے چینی عہدیداروں پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔ اس نے ہوواوے سمیت متعدد دیگر ٹیکنالوجی کمپنیو ں پر بھی پابندیاں عائد کردی تھیں۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)
چین میں ’سائیکلوں کے قبرستان‘
سائیکل پر سفر صحت کے لیے بھی مفید ہے اور ماحول کے لیے بھی۔ لیکن شنگھائی اور بیجنگ جیسے بڑے چینی شہروں میں سائیکل شیئر کرنے کا رجحان اتنا بڑھا کہ ’سائیکلوں کے قبرستان‘ وجود میں آنے لگے۔
تصویر: Getty Images/AFP
’سائیکلوں کے کھیت‘
چین کے کئی شہروں میں پولیس کو روزمرہ کے کاموں کے ساتھ اب ایک اضافی کام کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ کام سڑکوں کے کناروں پر اور پارکوں میں ’بائیک شیئرنگ‘ کے لیے چھوڑ دی گئی سائیکلوں کو جمع کرنا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
’جدھر دیکھیے، ادھر سائیکلیں ہیں‘
چین میں سائیکل شیئرنگ کی اجازت دیے دو برس ہو چکے ہیں اور اس دوران کئی بڑے چینی شہروں میں نہ صرف سائیکلوں کا استعمال بڑھا، بلکہ ہر جگہ دستیاب سائیکلوں کی بڑی تعداد دکھائی دیتی ہے۔ حکام کے مطابق صرف بیجنگ کے گلی محلوں میں سڑک کنارے رکھی ایسی سائیکلوں کی تعداد کئی ملین بنتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Khanna
’جہاں جی چاہے پارکنگ کرو‘
بائیک شیئرنگ کا مقصد اور استعمال بہت سادہ ہے۔ ایک ایپ ڈاؤن لوڈ کریں، فی گھنٹہ کے حساب سے کرائے پر سائیکل آرڈر کریں اور ایپ سے ملنے والا کوڈ سڑک کے کنارے کھڑی کسی سائیکل میں ڈالیں۔ اب بائیک آپ کی ہوئی، اپنی منزل پر پہنچ کر جہاں جی چاہے لاک کر کے سائیکل چھوڑ دیں۔
تصویر: picture-alliance/Imaginechina/S. Chunchen
’شہر میں گم‘
عوام تک سستی سائیکلوں کی رسائی یقینی بنانے کی چینی حکام کی یہ کوشش تو کامیاب رہی۔ اوفو اور موبائیک جیسی بڑی چینی کمپنیوں نے انتہائی کم نرخوں پر کرائے کی سائیکلیں فراہم کر دیں۔ لیکن اب شہروں کی انتظامیہ پر ترک شدہ سائیکلوں کو ٹھکانے لگانے کا اضافی بوجھ بھی آن پڑا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele
’قبرستان تو بن چکے‘
بائیک شیئرنگ کا اتنی جلدی اور بڑے پیمانے پر مقبول ہو جانے کا اندازہ شاید چینی حکام بروقت نہیں لگا پائے۔ اب شنگھائی جیسے شہروں کی انتظامیہ نے متروک سائیکلوں کو سڑکوں کے کنارے پھینکے جانے سے روکنے کے لیے نئے ضوابط تو متعارف کرائے ہیں، لیکن اس دوران ’سائیکلوں کے قبرستان‘ وجود میں آ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters
’سائیکلوں کا بلبلہ‘
ناقدین کا کہنا ہے کہ کم داموں میں سائیکلوں کی فراہمی کے بلبلے کے باعث غیر معیاری سائیکلیں تیار کی گئیں۔ پیڈلوں اور چین کے بغیر سڑک کنارے کھڑی متروک سائیکلیں یہی بلبلہ پھٹنے کا نتیجہ ہیں۔